رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: 'عید ان کی ہوتی ہے جن کے گھر میں روٹی ہو'


"سیلاب کو گزرے جب چار ماہ ہوگئے تو ہمیں اطلاع ملی کہ دادو کے ایک گاؤں میں کسی خاندان نے اپنی 14 سالہ بیٹی کو 50 ہزار روپے کے عوض فروخت کیا ہے۔ ہم نے اس خاندان سے ملاقات کی اور وجہ جانی تو انہوں نے کہا کہ ہم بھوک سے مر رہے تھے تو ایسے میں ہمیں یہی کرنا صحیح لگا کیوں کہ باقی کنبے کو بھی تو بچانا تھااب وہ آدمی اس کو لے جائے گا اور شادی کرلے گا۔"

یہ کہنا ہے معشو ق برہمانی کا جو سجاگ سنسار نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ ہیں۔ ان کا ادارہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف آگاہی دینے کا کام کرتا ہے۔ سیلاب میں لوگوں نے اپنی بھوک سے تنگ آکر بیٹیوں تک کو فروخت کیا ۔اس سے بدتر کیا ہوسکتا تھا۔

سیلاب کے بعدکراچی سے اندرون سندھ یہ ہمارا تیسراسفر تھا۔ جامشورو سے مانجھند اور پھر سیہون تک کا سفر تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے کا ہے جس میں اس بار ہمیں ہر سو ہر یالی دکھائی دی۔

آٹھ ماہ قبل یہاں پانی ہی پانی تھا۔ اس علاقے سے گزر کر ہمیں سندھ کے ضلع دادو پہنچنا تھا۔ دادوکی تعلقہ جوہی میں ہماری ملاقات معشوق برہمانی سے ہوئی جن سے ہم نے تفصیلات جانیں کے سیلاب کے بعد اب متاثرہ علاقوں کی صورتِ حال کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے معشوق برہمانی کا کہنا تھا، 2022 کے سیلاب سے ہونے والی تباہی کو اگر سامنے رکھیں تو 2010 کا سیلاب کچھ بھی نہیں تھا۔

سندھ میں معمول سے زیادہ بارشیں شاید یہ علاقے سہہ جاتے لیکن بلوچستان سے آنے والے سیلابی ریلے جو کیرتھر کی پہاڑیوں سے یہاں پہنچے انہوں نے تباہی مچادی جس کا اثر یہاں کے لوگوں پر پڑا۔ انہوں نے گھر، زمینیں، مویشی کھو دینے کے بعد خود کو بھوک سے بچانے کے لیے اپنی بیٹیوں کو فروخت کیا۔

'ایک اولاد باقی سب کو مرنے سے بچا سکتی ہے تو اس میں برا کیا ہے'

معشوق نے مالی مشکلات کے باعث اپنی بیٹی فروخت کرنے والے خاندان سے متعلق مزید بتایا کہ " انہوں نے اس خاندان کو سمجھایا کہ اگر وہ شخص آپ کی بیٹی کو شادی کے نام پر کہیں آگے فروخت کردے یا کسی اور غلط کام پر لگادے تو کیا ہوگا۔ آپ یہ پیسے واپس دے کر اپنی بیٹی بچا بھی سکتے ہیں وہ ابھی کم عمر ہے جس پر اس بچی کے باپ کا کہنا تھا کہ ہم رقم لے کر خرچ کر چکے ہیں۔"

معشوق کے مطابق بچی کے والد نے مزید کہا کہ "ایسا کرنے کا سوال ہی نہیں اور اگر بالفرض ہم کہیں سے پیسے لے کر اسے واپس بھی دیں تو برادری کا بڑا ہمیں نہیں چھوڑے گا۔ہماری بچی کے ساتھ برا نہیں ہوسکتا اس کی ضمانت تو برادری کے سربراہ نے دی ہے اور صرف ہم ہی نہیں اور بھی خاندانوں نے ایسا کیا ہے اگر اس مشکل وقت میں ہماری کوئی ایک اولاد سب کو مرنے سے بچانے کے کام آسکتی ہے تو اس میں برا کیا ہے۔"

اس دردناک کہانی کو سننے کے بعد مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ بھوک اور افلاس انسان سے وہ سب کرا سکتی ہے جس کو وہ عام حالات میں بدترین سمجھتا ہے۔

سجاگ سنسار کے دفتر سے نکل کر ہمارا اگلا سفر جوہی کے ایک گاؤں احمد خان کھوسوکا تھا۔ کئی زمینوں پر کسان اور خواتین کام کرتے دکھائی دیے جہاں گندم کی کٹائی جاری تھی۔

یہ گاؤں 60 خاندانوں پر مشتمل تھا جس میں ایک بھی پکا گھر سلامت دکھائی نہیں دیا۔ دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں جن کے آگے گندم کی بوریاں رکھ کر بچوں کو اس ٹوٹی دیوار کی پہنچ سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جھاڑیوں، درختوں کی ٹہنیوں سے چار بانس پر ایک چھپر بنا کر اس کے سائے تلے خواتین اور بچے بیٹھے ہوئے تھے یہی ان کا گھر تھا۔


چھوٹی عمر کی کئی بچیاں بکریوں کے پیچھے دوڑتی یا پھر ہینڈ پمپ سے پانی بھر کر گھر لاتی دکھائی دے رہی تھی۔ ان بچیوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں اچانک سے اس بچی کا خیال ابھرا جس کو اس کے خاندان نے 50 ہزار روپے کے عوض بیچ دیا تھا۔

ایسا سلوک تو گائے بھیڑوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا نہ جانے اب وہ بچی کہاں ہو گی۔ اس سیلاب نے اس کے والدین کا گھر اور فصل تباہ کی لیکن اس بچی کی زندگی، خواب سیلاب کے ساتھ ساتھ موقع پرست جس طرح نگل گئے وہ دکھ کسی کو نظر نہیں آئے گا۔

'پہلے دو دن بعد کھا رہے تھے اب دن میں ایک بار کھانا مل جاتا ہے'

چارپائی پر بیٹھی13 بچوں کی ماں 40 سالہ وزیراں خمیسو اپنے بیمار بچوں کو گرمی سے بچانے کے لیے اپنے دوپٹے سے ہوا دے رہی تھی۔جلی ہوئی لکڑیاں اب راکھ بن چکی تھیں روٹی کا آخری ٹکڑا لیے ایک بچہ جس کے تن پر کوئی کپڑا اور پیر میں جوتا نہ تھا چارپائی کے کنارے بیٹھا کھا رہا تھا۔ اتنی غربت اور مفلسی کے باوجود بھی ہمیں دیکھ کر وزیراں نے ہمارے بیٹھنے کے لیے ایک رلی چارپائی پر بچھائی۔


گاوں کب واپس آئی ہو؟ میرے سوال پر وزیراں ہنسی اور بولی کہ تین ماہ ہم رنگ بند پر بیٹھے ہوئے تھے نہ کوئی چھاؤں تھی نہ ہی کھانے کو کچھ تھا۔ تھوڑا بہت مرد کہیں سے ڈھونڈ کر لاتے تو بچوں کو پکا کر کھلا دیتے۔ تب بھی بھوک تھی اب بھی بھوک ہے۔ تب دو دن بعد کھارہے تھے اب دن میں ایک وقت کھا رہے ہیں۔

وزیراں کا مزید کہنا تھا کہ "جب سیلاب آیا تب میرا بچہ پیدا ہونے والا تھا میں بہت تکلیف میں تھی خاندان والو ں نے بڑی مشکل سے سواری کا بندوبست کر کے سرکاری اسپتال پہنچایا۔ ہم جانتے ہیں کیسے ہم نے وہ تین مہینے گزارے پھر ہم نے جب دیکھا کہ پانی تھوڑا اترا ہے لیکن ابھی خشک نہیں ہوا ہم یہاں واپس آگئے۔ ہمارا گھر، سامان سب بہہ چکا تھالیکن یہ آسرا تھا کہ اپنے گھر آگئے ۔تم ہمارے گاؤں تک آ گئی ہو لیکن سرکار نہیں آئی۔"

عید کیسے گزرے گی؟ اس سوال پر وزیران کا کہنا تھا کہ پچھلی عید تو گھر کی چار دیواری میں گزری تھی۔ بچو ں کے لیے شہر جاکر نئے کپڑے جوتے لیے تھے، سویاں پکی تھیں گوشت پکایا تھا، ہار سنگھار کا سامان لیا تھا اب تو عید روکھی سوکھی کھا کر گزر جائے گی۔ ہمارے بچوں کو ابھی پتا ہی نہیں کہ عید ہے۔ اتنی بھوک میں کسی کو کیا عید منانی بس دو قت کی روٹی کا آسرا ہوجائے وہی کافی ہے۔ یہ کہتے ہوئے وزیراں نے اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھ لیے۔

فصل بھی کم ہوئی ہے اور معیار بھی اچھا نہیں ہے

اسی گاؤں کے مکین اسرار علی سندھ یونیورسٹی میں بی بی اے کے طالب علم ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے گزر بسر کا دارومدار کپاس اور گندم پر ہوتا ہے۔ گندم ہم سارا سال اپنے استعمال کے لیے رکھتے ہیں اور باقی فروخت کرتے ہیں جب کہ کپاس تو ہے ہی ہماری کمائی کا ذریعہ۔ لیکن سیلاب کے بعد جو نئی فصل کی تیاری کی اس میں ہم نے زمین پر ہل بھی نہیں چلایا کیوں کہ اگر وہ سب کچھ کرتے تو اور دیر ہوجاتی۔

اُن کے بقول" ہم ویسے ہی تین ماہ تاخیر کا شکار تھے اب جو فصل ہوئی ہے اس نے پیداوار بھی کم دی اور اس کا معیار بھی اتنا اچھا نہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ اس بار بھی ہم اپنے لیے کچھ نہیں بچا سکتے۔ گاؤں کا تقریبا ہر بچہ گیسٹرو اور ملیریا کا شکار ہے۔ نہ ہم علاج کرواسکتے ہیں نہ اچھی خوراک ہے ایسے میں ہماری کیا عید ہوگی ہم تو عید کا سوچ بھی نہیں سکتے۔"

حنیفہ بخشن بھی اسی گاوں کی رہائشی ہیں 40 سال قبل ان کا خاندان کاچھو کا علاقہ چھوڑ کر یہاں اس لیے آ بسا کہ یہاں دو فصلیں اگتی ہیں ۔ حنیفہ کے مطابق ہم تو پھر سن رہے ہیں کہ اس سال بھی زیادہ بارشیں ہیں پہلے کی بارش میں تو ہمارے گھر، مویشی، فصلیں سب تباہ ہوئیں اب اگر بارش ہوگئی تو ہمارے پاس کھونے کو کیا بچے گا؟

اُن کے بقول اب تو بس یہ چند بکریاں، گائے بھینسیں اور چارپائیاں ہی ہیں۔ "مجھے یاد ہے کہ سیلاب سے پہلے والی عید پر میرے بچے کتنے خوش تھے میری بہووں اور پوتے پوتیوں نے نئے کپڑے سی کر پہنے تھے۔ ہم نے گھر سجایا تھا نئی رلیاں مہینوں پہلے بنانی شروع کردی تھی۔اب تو یہ حال ہے کہ سر ڈھانپیں تو پیر ننگے ہیں۔ جوان بچیو ں کا ساتھ ہے کسی گھر کی کوئی چار دیواری نہیں رات جاگ کر گزرتی ہے۔"

حنیفہ کا کہنا تھا کہ "بڑے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں اماں کیا اس سال عید نہیں منائیں گے؟ میں ابھی تسلی کے لیے کچھ کہنا ہی چاہوں تو آگے سے کہتے ہیں کہ ہاں اماں سب تو بہہ گیا عید کیسے ہوگی تو فکر نہ کر ہم اس دن بھی ایسے ہی گزاریں گے جیسے ابھی گزر رہا ہے۔ اس بار نہ سہی اگلی عیدہی سہی۔تم تو شہر سے آئی ہو وہاں تو سب اپنے بچوں کے لیے تیاریاں کر رہے ہوں گے ہمیں دیکھو ہمیں یہاں یہ فکر ہے کہ ابھی روٹی پکی ہے تو اگلی بار کب پکے گی۔"

سورج ڈھلنے میں کچھ ہی وقت تھا عورتیں اور مرد گندم کی کٹائی سے اب واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے جب کہ مویشی بے چین تھے کہ ان کی رسیاں کھلیں تو وہ کھلی جگہ گھوم پھر سکیں۔ آج کی ہونے والی کٹائی کے بعد جو گندم گھر لائی گئی اسے عورتوں نے صاف کرنا شروع کردیا اس کام کے دوران بچے دائرہ بنائے ماں کے اردگرد بار بار ایک ہی سوال کرتے نظر آئے کھانا کب پکے گا؟اس پر مائیں تسلی دیتے ہوئے اپنے ہاتھ اور تیز چلانے لگتیں۔

سیلاب کو گزرے آٹھ ماہ بیت گئے جس کے نشان آج بھی جابجا دکھائی دے رہے ہیں۔ جو تکالیف اور دکھ اس وقت ان خاندانوں نے اٹھائے وہ اب بھی ختم نہیں ہوئے کیوں کہ اس وقت ان کا سامنا بے رحم پانی سے تھا اور اب بھوک سے ہے۔

XS
SM
MD
LG