پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو چند روز قبل قومی احتساب بیورو (نیب) نے گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں مختلف حلقے یہ بحث کر رہے ہیں کہ آخر پاکستان میں زیادہ تر وزرائے اعظم ہی زیر عتاب کیوں آتے ہیں۔
پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے اپنے عہدے کی معیاد پوری نہیں کی۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں لیاقت باغ جلسے کے دوران سید اکبر نامی شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ جس کے بعد حملہ آور نے خود کشی کر لی تھی۔ لیاقت علی خان کو کیوں قتل کیا گیا یہ آج بھی معمہ ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے پاکستان میں طاقت کا توازن اسی عرصے کے دوران ہی بگڑ گیا تھا، اس کے بعد آنے والے وزرائے اعظم کے انتخاب میں مقتدر قوتوں کا عمل دخل مزید بڑھ گیا تھا۔
لیاقت علی خان کے بعد اور ایوب خان کے مارشل لا سے قبل سات سال کے دوران چھ وزرائے اعظم آئے جو محلاتی سازشوں کے باعث زیادہ عرصے تک اقتدار میں نہ رہ سکے۔
ان وزرائے اعظم میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور فیروز خان نون شامل ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بطور وزیر خارجہ وہ فوجی آمر ایوب خان کی کابینہ میں شامل رہے۔ تاہم 1967 میں ایوب خان کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے انہوں نے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو ایک عوامی لیڈر کے طور پر ابھرے اور پاکستان کے غریب طبقے میں انہیں پذیرائی ملی۔ تاہم 1977 کے عام انتخابات میں اُن پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے حزب اختلاف کی متعدد جماعتوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔
پانچ جولائی 1977 کو اُس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے مارشل لا لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایک سیاسی مخالف کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس مقدمے میں سزائے موت سنائی اور یوں اپریل 1979 کو انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو سیاسی قتل قرار دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار فوجی آمر ضیاالحق کو قرار دیتی آئی ہے۔
محمد خان جونیجو
پاکستان میں 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم بنے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق محمد خان جونیجو نہایت نرم گو طبعیت کے مالک تھے۔ لیکن اس کے باوجود فوجی آمر جنرل ضیاالحق سے ان کے اختلافات ہوئے جس کے بعد ضیاالحق نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
بے نظیر بھٹو
ضیاالحق کے گیارہ سالہ دور آمریت کے بعد ملک میں الیکشن کے بعد ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی وزیر اعظم بن گئیں۔
محض 18 ماہ بعد 1990 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا وہ 1993 میں دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تاہم ایک بار پھر وہ مدت پوری نہ کر سکیں اور 1996 میں ان کی حکومت کو رخصت کر دیا گیا۔
بے نظیر بھٹو 2007ء میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس پہنچیں تاہم 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر خود کش حملے میں وہ ہلاک ہوگئیں۔
نواز شریف
نواز شریف کے بارے میں پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ انہیں ضیاالحق نے سیاست میں لانچ کیا۔ تاہم بعد میں انہیں جب عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تو انہوں نے اپنی مرضی سے نظام حکومت چلانے کی کوشش کی جو انہیں مہنگی پڑتی رہی۔
وہ 1990 میں پہلی بار ملک کے وزیر اعظم بنے لیکن صدر غلام اسحاق خان نے 1993 میں اُن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
نواز شریف 1997 میں دو تہائی اکثریت سے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن 1999 میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگا کر نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا۔
نواز شریف آٹھ سال مبینہ جلا وطنی میں گزارنے کے بعد 2008 میں واپس آئے اور 2013 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ لیکن قسمت نے ایک بار پھر ان کا ساتھ نہ دیا اور کرپشن مقدمات پر انہیں پاکستان کی اعلٰی عدلیہ نے نا اہل قرار دیا۔ یوں پانچ سالہ مدت سے قبل ہی انہیں وزارت عظمی سے الگ ہونا پڑا۔
نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی جو وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی سابق صدر آصف علی زرداری کی سوئٹزر لینڈ میں موجود مبینہ رقوم کی واپسی کے لیے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں سزا سنائی گئی۔
سپریم کورٹ نے انہیں 30 سیکنڈ کی سزا سنائی اور یوں وہ بھی نا اہل ہو گئے اور انہیں عہدے کی معیاد سے قبل ہی رخصت ہونا پڑا۔
سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی نیب عدالتوں میں کرایے کے بجلی گھروں کے منصوبے میں مبینہ خرد برد کے الزامات کے تحت پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
عوامی لیڈروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے
سینئر تجزیہ کار عمار مسعود کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہیں عوامی مقبولیت حاصل تھی۔ یہ قصور بے نظیر بھٹو کا بھی اور یہی قصور نواز شریف کا بھی ہے۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ جس وزیر اعظم کو عوامی حمایت حاصل ہوتی ہے اسے عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بے نظیر بھٹو کی ہلاکت اور نواز شریف کی قید اس کی مثالیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ محمد خان جونیجو اور میر ظفر اللہ جمالی جیسے سادہ شخصیت کے حامل وزرائے اعظم بھی مستعفی ہو کر گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتے رہے۔
عمار مسعود کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ تاہم اب پاکستان کے عوام میں سویلین بالادستی کا شعور بیدار ہو رہا ہے۔
عمار مسعود کے مطابق مسئلہ صرف ایک وزیر اعظم کا نہیں ہے بلکہ اس مائنڈ سیٹ کا ہے جو عوام کی بالادستی کو قبول کرنے کو تیار نہیں جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی تو پاکستان میں تاریخ کا یہ تماشا جاری رہے گا۔
'قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے'
سینئر تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سابق صدر اور دو سابق وزرائے اعظم جیل میں ہیں۔
سلمان عابد کے بقول ہمیں سیاست اور جرائم کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ سنگین الزامات پر یہ کہنا کہ یہ سیاسی قیدی ہیں یہ مناسب نہیں۔
اُن کے بقول دنیا کے مختلف ممالک میں سابق وزرائے اعظم کے خلاف مقدمات قائم ہوتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
سلمان عابد کا کہنا ہے کہ ماضی میں بلاشبہ بعض وزرائے اعظم کو سیاسی قیدی بنایا گیا ہے، تاہم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کا معاملہ مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر دینا کے فوج، نیب اور عمران خان مل کر سیاسی انتقام لے رہے ہیں تو یہ زیادتی ہے۔
'تخت کی لڑائی دل و دماغ سے لڑی جاتی ہے'
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وزرائے اعظم کے لیے مشکلات رہی ہیں۔ ان کے بقول سیاسی قیادت اور اداروں نے ماضی میں کوتاہیاں کی ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ "تخت کی لڑائی کمزور دل لوگ نہیں لڑ سکتے اس کے لیے عقل اور دل دونوں کا میل درکار ہوتا ہے۔ ہمارے وزرائے اعظم یا تو دل کے ہاتھوں مات کھا گئے یا عقل کے ہاتھوں ہارتے رہے۔