ایشیا کپ کرکٹ ٹورنمنٹ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے اور متحدہ عرب امارارت میں کھیلے جانے والے اس ٹورنمنٹ میں کل چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ جمعہ کے روز ایشیا کپ ٹرافی کی رونمائی کی تقریب منعقد ہوئی جس میں تمام چھ ٹیموں کے کپتان شریک ہوئے۔ ٹرافی کی رونمائی کے بعد کپتانوں نے میڈیا سے خصوصی بات چیت کی جس میں پاکستان کے کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ اُن کی ٹیم بھرپور تیاریوں کے ساتھ میدان میں اتری ہے اور ٹورنمنٹ کا ہر میچ اہم ہو گا۔ بھارتی ٹیم کے کپتان اور شہرت یافتہ بلے باز وراٹ کوہلی ایشیا کپ کیلئے بھارتی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں اور اُنہیں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف مجوزہ سیریز کیلئے آرام دیا گیا ہے۔ اُن کی جگہ کپتاتی کے فرائض روہیت شرما انجام دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے اس موقع پر کہا کہ بھارت اور پاکستان کا میچ ہمیشہ پر جوش ہوتا ہے اور وہ اُس کے منتظر ہیں۔ تاہم ٹورنمنٹ کے تمام ہی میچ اہم ہیں کیونکہ سب ٹیمیں جیت کیلئے میدان میں اتری ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ ورلڈ کپ کی طرف پاکستان کا سفر جاری ہے۔ تاہم ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کو ایشیا کپ کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور انگلستان کے خلاف سیریز کھیلنی ہیں اور فی الحال تما متر توجہ ایشیا کپ پر مرکوز رہے گی جس میں پاکستان کا مقابلہ بھارت سے بدھ کے روز ہوگا۔
بھارت اور پاکستان کی ٹیموں نے کشیدہ تعلقات کے باعث 2008 کے بعد سے کوئی دو طرفہ سیریز نہیں کھیلی ہے اور ان دونوں ٹیموں کا مقابلہ صرف آئی سی سی ٹورنمنٹس میں ہی ہوتا ہے۔ تاہم کوئی بھی ٹورنمنٹ ہو، پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا بے پناہ دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گزشتہ برس کی چیمپینز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان اور بھارت آمنے سامنے آئے تو اُس کی تمام کی تمام ٹکٹیں فروخت شروع ہونے کے بعد صرف سات منٹ کے اندر فروخت ہو گئیں۔ اسی طرح اس سال یعنی 2019 میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے میچ کی ٹکٹیں 14 ماہ قبل ہی فروخت ہو چکی تھیں۔ یوں بدھ کے روز ایشیا کپ کے سلسلے میں ہونے والے پاکستان بھارت میچ پر بھی شائقین کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔
ایشیا کپ میں اب تک پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کے خلاف 12 میچ کھیلے ہیں جن میں بھارتی ٹیم 6 مرتبہ اور پاکستانی ٹیم 5 مرتبہ فاتح رہی جبکہ ایک میچ بارش کے باعث منسوخ کر دیا گیا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان ایشیا کپ میں پہلاٹاکرا 1984 میں متحدہ عرب امارات ہی میں کھیلے گئے ٹورنمنٹ میں ہوا جس میں بھارت نے پاکستان کے خلاف 54 رنز سے کامیابی حاصل کی۔ یہ ایشیا کپ کا پہلا ٹورنمنٹ تھا جس میں پاکستان، بھارت اور سری لنکا سمیت صرف تین ٹیموں نے شرکت کی۔
اس ٹورنمنٹ میں پاکستان کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی اور وہ بھارت اور سری لنکا دونوں کے خلاف شکست سے دوچار ہوئی۔
شارجہ کرکٹ گراؤنڈ پر میچ میں پہلے کھیلتے ہوئے بھارتی ٹیم نے چار وکٹوں پر 188 رنز بنائے ۔ بھارت کی طرف سے وکٹ کیپر سرندر کھنا 56 رنز بنا کر میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ جیت کیلئے 189 رنز کے ہدف کے تعقب میں پاکستان کی پوری ٹیم صرف 134 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ یوں بھارت نے یہ میچ 54 رنز سے جیت لیا۔
اس ٹورنمنٹ کے بعد دونوں ٹیمیں بنگلہ دیش میں 1988 میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں مد مقابل رہیں۔ اس میچ میں بھی پاکستان کو شکست کی ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ اس مرتبہ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بھارت کو صرف 143 رنز کا ہدف دیا جو بھارتی ٹیم نے 40.4 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ بھارت کی طرف سے مہندر امرناتھ نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 74 رنز کی اننگ کھیلی۔ بھارت کی طرف سے ارشد ایوب کو پانچ وکٹیں حاصل کرنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
تیسری مرتبہ ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کا مقابلہ متحدہ عرب امارات میں 1995 میں کھیلے گئے میچ میں ہوا جس میں پاکستان نے ایشیا کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارت کو شکست دی۔ اس میچ میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اووروں میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 266 رنز بنائے۔ انظمام الحق نے 100 گیندوں پر 7 چوکوں کی مدد سے 88 رنز بنائے۔ اُن کے علاوہ وسیم اکرم نے 46 گیندوں پر 50 رنز کی ناقابل شکست اننگ کھیلی جس میں چار چوکے اور دو چھکے شامل تھے۔ عامر سہیل نے بھی 40 گیندوں پر 40 رنز بنائے۔
جواب میں بھارت کا آغاز اچھا نہ رہا اور اوپنر پربھارکر اور ٹینڈلکر صرف 11 رنز کے مجموعی سکور پر پیویلین لوٹ گئے اور بھارت کی پوری ٹیم 42.4 اوورز میں 169 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی اور یوں بھارت کو اس میچ میں 97 رنز سے شکست ہوئی۔ پاکستان کی طرف سے عاقب جاوید نے 5 وکٹیں حاصل کیں اور اُنہیں مین آف دا میچ قرار دیا گیا۔
دونوں ٹیموں کے درمیان اگلا میچ سری لنکا میں کھیلے جانے والے 1997 کے ایشیا کپ میں ہوا۔ تاہم یہ میچ بارش کی نظر ہو گیا ۔ پاکستان نے اس میچ میں صرف 9 اوور کھیلے اور 30 رنز کے سکور پر اُس کی پانچ وکٹیں گر چکی تھیں جب بارش کی وجہ سے کھیل روک دیا گیا۔
سنہ 2000 ایشیا کپ ٹورنمنٹ بنگلہ دیش میں ہوا اور اس مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم نے بھارت کو 44 رنز سے شکست دے دی۔ اس میچ میں محمد یوسف کی شاندار سنچری کی بدولت پاکستان نے بھارت کو 296 رنز کا ہدف دیا۔ تاہم بھارتی ٹیم 47.4 اوورز میں 251 رنز بنا کر پیویلین لوٹ گئی۔ بھارت کی طرف سے صرف جدیجہ نے پاکستانی بولرز کا جم کر مقابلہ کیا اور 93 رنز کی اننگ کھیلی۔ اس میچ میں پاکستان کی طرف سے عبدالرزاق نے 4 بھارتی بلے بازوں کو پیویلین کی راہ دکھائی۔ تاہم مین آف دا میچ کا اعزاز محمد یوسف کے حصے میں آیا۔
بھارت اور پاکستان پھر سری لنکا میں 2004 میں کھیلے جانے والے ایشیا کپ میں ایک دوسرے کے مد مقابل آئے۔ اس میچ میں ایشیا کپ کی تاریخ میں پاکستان نے پہلی مرتبہ بھارت کے خلاف 300 رنز سکور کئے جس میں شعیب ملک نے 127 گیندوں پر 143 رنز کی دھواں دار اننگ کھیلی۔ ٹیندلکر اور عرفان پٹھان نے تین تین وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستان کے 300 رنز کے جواب میں بھارتی ٹیم 8 وکٹوں پر 241 رنز جوڑ سکی۔ بھارت کی طرف سے ٹینڈلکر 78 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ شعیب ملک اپنی تیز رفتار سنچری کے باعث مین آف دا میچ کے حقدار قرار پائے۔
ایشیا کپ کا اگلا ٹورنمنٹ 2008 میں پاکستان میں کھیلا گیا۔ اس بار پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا گروہ سٹیج پر ہوا جس میں بھارت نے 6 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ کراچی میں کھیلے گئے اس میچ میں 2004 میں کھیلے گئے میچ کی طرح شعیب ملک بھارتی بالروں پر مکمل طور پر چھائے رہے اور اُنہوں نے 119 گیندوں پر 125 رنز بنا ڈالے۔ پاکستان نے مقررہ اوورز میں چار وکٹوں کے نقصان پر 299 رنز بنائے۔ بھارتی ٹیم نے 300 رنز کے مشکل ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے شروع میں ہی صرف 12 کے سکور پر دو وکٹیں گنوا دیں۔ لیکن وریندر سہوگ اور سریش رائنا نے 198 رنز کی شراکت قائم کرتے ہوئے اپنی ٹیم کا کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ سہوگ نے 119 رنز بنائے جبکہ رائنا نے 84 رنز کی اننگ کھیلی۔
اسی ٹورنمنٹ کے سیمی فائنل میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک بار پھر ٹکرائیں اور پاکستانی ٹیم نے پہلے میچ میں اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔ پاکستان نے یہ میچ 8 وکٹوں سے جیت لیا۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 308 رنز بنائے جس کے جواب میں پاکستان نے جیت کیلئے 309 رنز کا ہدف 46 ویں اوور میں صرف دو وکٹیں گنوا کر حاصل کر لیا۔ یونس خان نے اس میچ میں 123 رنز کی ناقابل شکست اننگ کھیلی اور مین آف دا میچ قرار دئے گئے۔
اگلا ایشیا کپ 2010 میں سری لنکا میں ہوا۔ اس میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے سلمان بٹ اور کامران اکمل کی نصف سنچریوں کی بدولت بھارت کو 268 رنز کا ہدف دیا۔ بھارتی ٹیم نے مطلوبہ ہدف میچ کے آخری اوور کی پانچویں گیند پر حاصل کر لیا۔
2012 میں بنگلہ دیش نے ایشیا کپ کی میزبانی کی۔ اس میں بھارت نے پاکستان کے خلاف 6 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ پاکستان نے اس میچ میں محمد حفیظ اور ناصر جمشید کی دھواں دار سنچریوں کے باعث 6 وکٹوں پر 329 رنز جوڑے لیکن بھارتی ٹیم نے سچن ٹنڈلکر، وراٹ کوہلی اور شرما کی شاندار بیٹنگ کے باعث یہ میچ ایک وکٹ سے اپنے نام کر لیا۔ کوہلی نے اس میچ میں 183 رنز بنائے۔
2014 کا ایشیا کپ بھی بنگلہ دیش میں کھیلا گیا۔ ڈھاکہ میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے بھارت کے خلاف ایک وکٹ سے کامیابی سمیٹی۔ اس میچ میں تین نصف سنچریوں کے باوجود بھارتی ٹیم 8 وکٹوں پر 245 رنز بنا سکی۔ سعید اجمل نے اس میچ میں 40 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ جبکہ محمد حفیظ اور محمد طلحا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔
محمد حفیظ نے شاندار بالنگ کے بعد بیٹنگ میں 75 رنز بنائے۔ اُن کے علاوہ احمد شہزاد نے 42 اور سہیب مقصود نے 38 رنز سکور کئے جبکہ کپتان شاہد آفریدی نے صرف 18گیندوں پر 34 رنز بنائے۔ یوں پاکستان نے آخری اوور میں یہ میچ جیت لیا۔
پاکستان اور بھارت کا اگلا معرکہ 2016 کے ایشیا کپ میں ہوا ۔ یہ ٹورنمنٹ T20 فارمیٹ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی ٹیم پہلے کھیلتے ہوئے صرف 83 رنز ہی بنا سکی۔ تاہم جب بھارت نے بیٹنگ شروع کی تو محمد عامر نے بھارت کے تین ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں روہیت شرما، راہانے اور سریش رائنا کو صرف 8 رنز کے مجموعی سکور پر آؤٹ کر دیا۔ تاہم وراٹ کوہلی نے پاکستانی بالرز کا جم کر مقابلہ کیا اور محمد سمیع کا شکار بننے سے پہلے اُنہوں نے 51 گیندوں پر 49رنز بنا کر اپنی ٹیم کیلئے جیت کو ممکن بنا دیا۔ وراٹ کے آؤٹ ہونے کے بعد دھونی اور یوراج سنگھ نے اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔
اب بدھ کے روز ہونے والے ایشیا کپ ٹاکرے میں پاکستان اور بھارت تیرھویں بار آمنے سامنے ہوں گی۔ اگرچہ اس بار بھارتی ٹیم کو اُس کے سٹار بیٹسمین وراٹ کوہلی کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی، کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی ٹیم وراٹ کے بغیر بھی خاصی مضبوط اور تجربہ کار ہے۔ یوں یہ بدھ 19 ستمبر کو ہی معلوم ہو سکے گا کہ آیا پاکستان ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف اپنی فتوحات کو چھ تک لیجا کر برابر کر سکے گی یا پھر بھارتی ٹیم ساتویں بار پاکستان کو ہرانے میں کامیاب ہو گی۔