پاکستان میں آٹے کی قیمت اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہےاور مارکیٹ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی اس بارے میں کوئی اچھی خبریں نہیں یعنی قیمتیں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 5100روپے فی چالیس کلو گرام تک پہنچ چکی ہے اور چکیوں پر آٹا 150 روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے۔ یوں اگر آپ چکی سے 20 کلو آٹے کا تھیلا خریدنے جائیں گے تو وہ آپ کو تین ہزار روپے میں ملے گا۔
لگ بھگ ایک ماہ پہلے چکی پر آٹا 85 روپے سے یکمشت 100 روپے کلو ہوا تھا تو اس کا کچھ روز تک میڈیا پر چرچا ہوا اور پھر بات دب گئی تھی لیکن ایک ماہ کے دوران ایسا کیا ہوا کہ گندم اور آٹے کی قیمت کو اچانک پر لگ گئے اور قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا۔
اس صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے ہم نے گندم اور آٹے کے کاروبار سے منسلک کچھ افراد ، سرکاری افسران اور حکومتی افراد سے بات چیت کی ہے۔
ماہرین کے مطابق حالیہ سیلاب کے باعث زرعی زمینوں کی تباہی ، صوبائی حکومتوں کی طرف سے فلور ملز کے گندم کوٹہ میں کمی، گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی حکومتوں کا گندم و آٹے کی فروخت میں غیر مؤثر کنٹرول بحران میں مسلسل اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔
'بھارت سے سستی گندم مل سکتی ہے، لیکن ہم نہیں لیں گے'
ماہر اجناس عبدالناصر شیخ کہتے ہیں کہ پاکستان 30 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کررہا ہے لیکن یوکرین اور روس سے گندم مہنگی پڑے گی، اس کے برعکس بھارت سے ہمیں سستی گندم مل سکتی ہے۔ لیکن تجارتی تعلقات محدود ہونے کے باعث بھارت سے گندم نہیں منگوائی جا سکتی اور یوں مہنگی گندم ہی خریدی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ مارچ میں سندھ کی فصل منڈیوں میں آجاتی ہے لیکن اس سال سیلاب کے باعث سندھ میں پیداوار کم ہونے کی وجہ سے ملک میں پنجاب کی گندم پر انحصار کیا جائے گا جس کی فصل اپریل کے تیسرے عشرے میں منڈیوں میں آنا شروع ہو جائے گی۔
یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت نے ذخیرہ اندوزی کے خلاف چاروں صوبوں میں ٹھوس کارروائی نہ کی اور اس کے ساتھ ساتھ بروقت گندم امپورٹ نہ کی تو اگلی فصل آنے پر بھی گندم اور آٹے کی قیمتیں کم نہ ہو پائیں گی اور غذائی بحران بڑھنے کا خدشہ ہے۔
سیلاب سے تباہی گندم کی کمی کی بڑی وجہ؟
پاکستان کے دو صوبوں سندھ اور پنجاب میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے ، سندھ میں گندم کی کٹائی 15 مارچ سے جب کہ پنجاب میں گندم کی کٹائی 15 اپریل سے شروع کردی جاتی ہے۔
ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے جہاں ملک کے بڑے حصے میں تباہی مچائی وہیں فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
صوبہ سندھ کے ایک بڑے زرعی رقبے میں ابھی تک زمین اس قابل نہیں ہوسکی کہ وہاں فصل کاشت کی جاسکے، سندھ میں گندم کی بوائی کا سیزن اکتوبر اور نومبر ہوتا ہے جہاں ان مہینوں میں فصلوں میں پانی کھڑا تھا اور تاحال سندھ کے متاثرہ علاقوں میں زرعی زمینیں ہموار نہیں ہوسکیں۔
اس صورتِ حال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مارچ میں جب سندھ میں گندم کی کٹائی شروع ہو گی تو سندھ کے کئی ایسے کسان کٹائی کے بجائے اپنی زمینوں کی بحالی میں مصروف ہوں گے جن کی زمینیں سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے زراعت منظور حسین وسان کے مطابق اس سال سندھ کے 10 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی بوائی نہیں کی جاسکی جس وجہ سے فصل صرف 2.4 ملین ایکڑ پر ہوئی ہے۔
سیلاب نے سندھ کی 4.6 ملین ایکڑ زرعی اراضی کو تباہ کردیا ، جس میں کپاس کی 100 فی صد اور چاول کی 75 فی صد فصل شامل ہے۔
'ذخیرہ اندوز کروڑوں روپے کما رہے ہیں'
ـا"اجناس پر سرمایہ کاری کرنے والوں نے اتنے پیسے کبھی نہیں کمائے جتنے حالیہ کچھ مہینوں میں کمائے گئے ہیں۔"
یہ کہنا ہے غلہ منڈی میں آڑھت ایسوسی ایشن کے صدر قمر بٹ کا جو کہ 50 برس سے زیادہ عرصہ سے آڑھت سے وابستہ ہیں اور ان کی اگلی نسل بھی اب یہی کام کررہی ہے۔
قمر بٹ کا کہنا ہے کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی پر اگر قابو پالیا جائے تو گندم کی قیمتیں نیچے آ سکتی ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہونا ناممکن ہے کیوں کہ سندھ اور پنجاب کے بڑے بڑے گودام بڑے بڑے سیاست دانوں کے ہیں، ان پر کون ہاتھ ڈالے گا کسی افسر میں اتنی جرات نہیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ آڑھتیوں کو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہوئے قیمتوں میں ناجائز اضافہ کردیتے ہیں ، اگر ہم کسانوں کو ایڈوانس رقم نہ دیں تو ان کےلیے فصل کاشت کرنا مشکل ہو جائے۔
قمر بٹ کا کہنا ہے کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ آڑھتی بھی اجناس ذخیرہ کر لیتے ہیں اور اس کی قیمتیں بڑھنے کے بعد فصل کو مارکیٹ میں لاتے ہیں تاہم ایسے آڑھتیوں کی تعداد کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں نے ایک سے ڈیڑھ ماہ میں کروڑوں روپے اضافی کما لیے ہیں ، ابھی بھی کچھ لوگوں کے گوداموں میں ہزاروں بوریاں موجود ہیں جو وہ فروری یا مارچ میں مارکیٹ میں لائیں گے کیوں کہ ان مہینوں میں گندم کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔
سبسڈی کے باوجود آٹے کی قیمتیں آؤٹ آف کنٹرول
پنجاب میں صوبائی حکومت گندم کی قیمت کو اعتدال پر لانے کے لیے سبسڈی دے رہی ہے لیکن اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں، حالاں کہ ملک میں سب سے زیادہ گندم پنجاب میں پیدا ہوتی ہے۔
محکمہ خوراک کے ایک فوڈ کنٹرولر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے آٹے کی فروخت پر سبسڈی دی گئی ہے جس وجہ سے اس صوبے میں قیمتیں دوسرے صوبوں سے کم ہیں۔
فوڈ کنٹرولر کا مزید کہنا تھا کہ "صوبائی محکمہ خوراک فلور ملز مالکان کو 2300 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے گندم فروخت کررہا ہے جو کہ اس گندم کی پسائی کرکے محکمہ خوراک کو آٹا 1265 روپے 20 کلو گرام کے حساب سے واپس بیچتے ہیں ، ہم وہی 20 کلو والے تھیلے اوپن مارکیٹ کی دکانوں اور مخصوص پوائنٹس پر 1295 روپے کا فروخت کرتے ہیں۔ـ"
اگر دکان دار امدادی قیمت یا سبسڈی والا آٹا زائد قیمت پر فروخت کرتا پکڑا جائے تو اس کو گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امدادی قیمت یا سبسڈی نرخ پر 1295 روپے میں 20 کلو کا تھیلا فروخت ہورہا ہے تو لوگ لگ بھگ ڈبل یعنی 2500 سے 2700 روپے میں اوپن مارکیٹ میں 20 کلو کا تھیلا کیوں خرید رہے ہیں اور چکیوں پر 3 ہزار روپے کا بیس کلو آٹا کیوں فروخت ہورہا ہے۔
مختلف مارکیٹوں کے دکان داروں سے بات چیت کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ مخصوص دکانوں اور پوائنٹس پر سبسڈی والا آٹا آتا تو ہے لیکن فوراً بک جاتا ہے۔
عام لوگوں کے لیے آٹے کے ایک تھیلے کے لیے لمبی لائنوں میں لگنا آسان بات نہیں، سرکاری آٹا محدود مقدار میں آتا ہے اور طلب زیادہ ہونے کے باعث ایک دو گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے۔
محکمہ خوراک نے اب 20 کلو کے تھیلے دینے کے بجائے دس دس کلو کے تھیلے دینا شروع کر دئیے ہیں جن کی قیمت 650 روپے ہے اور لوگوں سے ان کے شناختی کارڈ کی کاپیاں بھی لی جارہی ہیں، اگر کسی کے پاس شناختی کارڈ کی کاپی نہیں تو اسے تھیلا نہیں دیا جارہا۔
خواتین ایسے موقع پر سخت پریشان ہیں کیوں کہ اس دھکم پیل میں ان کے لیے الگ سے انتظام نہیں کیا گیا ، ایک خاتون بلقیس بی بی کا کہنا تھا کہ راشن ملنا کبھی اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اب بنا دیا گیا ہے ، آٹا اتنی مشکل سے مل رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔
سبسڈی والے آٹے میں خوردبرد کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
ایک دکان دار ملک امین نے بتایا کہ بعض لوگوں کی شکایات ہیں کہ سبسڈی والا آٹا غیر معیاری ہوتا ہے جس وجہ سے لوگ ان برانڈز کے ہی تھیلے خریدتے ہیں جن کی کوالٹی پر ان کو اعتماد ہوتا ہے ، اگر روٹی ہی ٹھیک نہ بنے تو کھانے کا کیا مزہ آئےگا۔
اصل ایشو کوٹے میں کمی؟
پنجاب میں فلور ملز کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے جن کو صوبائی حکومت کوٹے کے مطابق گندم سپلائی کرتی ہے ، پنجاب میں روزانہ کا کوٹہ ساڑھے 21 ہزار ٹن یعنی دو لاکھ 15 ہزار بوری گندم مقرر ہے جب کہ گزشتہ سالوں میں 30 ہزار ٹن یعنی تین لاکھ بوری بھی کوٹہ رہا ہے۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کے رہنما گوہر سعید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسوسی ایشن کے نمائندہ وفد نے حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے ملاقات کی ہے اور ان کو کہا ہے کہ آٹے کی قیمت میں کمی لانے کے لیے گندم کے کوٹے میں اضافہ کیا جائے اور 21 ہزار ٹن سے بڑھا کر کم از کم 28 ہزار ٹن روزانہ کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلی پنجاب نے کوٹہ مرحلہ وار بڑھانے کا وعدہ کیا ہے اور اسے فوری طور پر 23 ہزار ٹن کرنے کا اعلان کیا ، لیکن تاحال اس بارے کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
گوہر سعید نے کہا کہ ملک کے باقی تین صوبوں میں گندم کے حوالے سے انتہائی بدترین صورتِ حال ہے ، لوگ مہنگے داموں آٹا خرید رہے ہیں اور صورتِ حال میں فوری طور پر کوئی بہتری آتی نظر نہیں آرہی ، خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں آٹا نایاب ہو رہا ہے۔
گوہر سعید کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں گندم کے الگ الگ ریٹ ہیں، مثال کے طور پر گوجرانوالہ کی منڈیوں میں گندم کا آج کا ریٹ 5100 روپے فی 40 کلو گرام ہے۔ تو راولپنڈی کی اوپن مارکیٹ میں 5500 روپے فی 40 کلو پر گندم فروخت ہورہی ہے ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ قیمتوں پر کسی کا کنٹرول نہیں۔
پنجاب حکومت فلور ملز کو 2300 روپے من گندم دے رہی ہے لیکن اسی گندم کی اوپن مارکیٹ میں قیمت پانچ ہزار روپے من سے زیادہ ہے ، یوں صوبائی حکومت لگ بھگ اڑھائی سے تین ہزار روپے فی من کی سبسڈی دے رہی ہے۔
یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دیہاتی علاقوں سے بھی گندم ختم ہوگئی ہے ، دیہات میں زمیندار لوگ گھروں یا ڈیروں پر کام کرنے والوں کو اجرت کے طور پر گندم دے دیا کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہورہا اور دیہات میں بھی گندم کی قلت نظر آرہی ہے۔
گوہر سعید کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں کی طرف سے کوٹے سے کم گندم سپلائی کرنے کی وجہ سے دس ہزار ٹن یا ایک لاکھ بوری روزانہ کا شارٹ فال ہے جس وجہ سے اوپن مارکیٹ میں گندم کی خریداری بڑھ گئی ہے اور ریٹ میں اضافے کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں اسی کوٹے کے مطابق گندم فلور ملز کو سپلائی کریں جوکہ گزشتہ سالوں میں تھا تو آٹے کا ریٹ اپنی اصل جگہ پر واپس آجائے گا۔
گوہر سعید کا کہنا ہے کہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وفاق گندم بچانے اور اسے اسٹاک کرنے کی فکر میں ہے تاکہ ملک میں زرعی قلت پیدا نہ ہو جس کا فائدہ ذخیرہ اندوز اٹھا رہے ہیں جب کہ صوبوں نے بھی گندم کی سپلائی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور سارا بوجھ اوپن مارکیٹ پر آگیا ہے۔
ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی بڑی اجناس میں گندم ، چاول اور کپاس شامل ہیں ، ایک زرعی ملک میں اجناس کی قلت ہونا حکومتی اداروں کی ناقص حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان میں ہر تین چار سال بعد گندم اور آٹے کی قلت کا معاملہ سامنے آتا ہے جس پر حکومتی اداروں کی طرف سے وقتی طور پر ایکشن لیا جاتا ہے ۔
سرکاری میٹنگز کی جاتی ہیں اور پھر بحران پر قابو پانے کے دعوے کیے جاتے ہیں ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ شعبہ حکمرانوں کی ترجیحات میں ہی کبھی شامل نہیں رہا۔
ماہرین اجناس کا کہنا ہے کہ حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو ، زراعت کے شعبے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں نہیں کی جاتیں۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے ، کسانوں کے لیے اسکیمیں شروع کرنے اور آنے والے برسوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پلاننگ کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
ماہرین کے مطابق ملک بھر میں زرعی زمینوں کو ختم کرکے وہاں ہاؤسنگ اسکیمیں بنانا بھی جاری ہے جس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی، زرعی رقبہ کم ہونے اور آبادی بڑھنے کے باعث آنے والے سالوں میں اجناس کی قلت بڑھے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گندم اور آٹے کا حالیہ بحران الارمنگ اور حکومتی اداروں کے لیے ٹیسٹ کیس ہے ، اگر اب بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں غذائی بحران کا مورد الزام ٹھہرائیں گی۔