|
ویب ڈیسک _ امریکہ کے انسدادِ دہشت گردی سینٹر کے اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں دونوں تنظیموں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے لیکن ایرانی حمایت یافتہ ان تنظیموں کو مکمل ختم کرنا ابھی باقی ہے۔
اینٹی کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر (این سی ٹی سی) کے قائم مقام ڈائریکٹر بریٹ ہالمگرین نے منگل کو واشنگٹن میں ایک تقریب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی انٹیلی جینس آپریشنز سمیت غزہ اور لبنان میں فضائی و زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل پر حملے کی صلاحیت کو بہت حد تک کمزور کر دیا ہے۔
البتہ انہوں نے خبردار کیا کہ دونوں گروپس میں مزاحمت کی صلاحیت موجود ہے اور جہاں تک حزب اللہ کا تعلق ہے تو اس کے پاس نمایاں صلاحیتیں موجود ہیں۔
ہالمگرین نے کہا کہ تنازع کے آغاز سے قبل حزب اللہ نے غیر معمولی تعداد میں راکٹس، میزائل اور دیگر بارودی مواد اکٹھے کر لیے تھے اور اس نے ابتدا میں بہت شدت کے ساتھ حملے کیے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے جب حزب اللہ کی قیادت کو ختم کیا تو اس وقت تنظیم کی زمینی فورسز جنوبی لبنان میں بدستور لڑائی میں مصروف تھیں۔
ہالمگرین کے بقول اسرائیل کے اقدامات نے مشرقِ وسطیٰ سے باہر حزب اللہ کی پہنچ کو بہت کم نقصان پہنچایا ہے اور اس کی خارجی صلاحیت کو اب تک ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی خطے کے باہر سے حزب اللہ کے کسی بھی حملے کے لیے چوکنا ہیں۔
حماس اور حزب اللہ کی جنگجوؤں کی تعداد
اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے سے قبل امریکی انٹیلی جینس نے تخمینہ لگایا تھا کہ گروپ کے پاس 20 سے 25 ہزار جنگجو ہیں جب کہ بعض تخمینوں کے مطابق جنگجوؤں کی تعداد 30 ہزار یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب حزب اللہ سے متعلق امریکہ کا تخمینہ تھا کہ ان کے پاس تقریباً 40 ہزار جنگجوؤں کے علاوہ ریاست کی طرز پر عسکری صلاحیت موجود ہے۔
ہالمگرین نے منگل کو واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے یہ واضح نہیں کیا کہ حماس اور حزب اللہ کے اب تک کتنے جنگجو مارے جا چکے ہیں۔
تاہم اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے 14 ہزار جب کہ حزب اللہ کے 2550 سے زیادہ جنگجو ہلاک کر دیے ہیں۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ حزب اللہ کے شارٹ اور میڈیم رینج راکٹس کے 80 فی صد ذخائر کو تباہ کر دیا ہے۔
غزہ میں صحت کےحکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں اب تک 43 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے آدھی سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق تنازع میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔ البتہ ہلاکتوں کی اس تعداد میں سویلین اور حزب اللہ کے جنگجوؤں میں تفریق شامل نہیں ہے۔
دہشت گردی پھیلنے کا خدشہ
لبنان اور غزہ میں اموات کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ اس سے دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود شدت پسند تنظیموں کو تقویت مل سکتی ہے۔
حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کم از کم ایک ماہ کے اندر ہی امریکہ کے انسدادِ دہشت گردی کے حکام نے خبردار کیا تھا کہ یہ اس طرح کا حملہ ہے جو داعش، القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کو متحرک کر سکتا ہے۔
ہالمگرین کے مطابق حماس کے حملے نے دیگر شدت پسند تنظیموں کو دوبارہ منظم ہونے میں مدد دی ہے۔
انہوں نے منگل کو وعدہ کیا کہ وہ امریکہ اور اتحادیوں کے تحفظ کے لیے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔
ہالمگرین نے مزید کہا کہ وہ ٹرمپ حکومت کی قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ ذمے داریوں کی منتقلی کے لیے رابطے میں ہیں اور یہ یقینی بنایا جائے گا کہ وہ خطرات کے ماحول کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے دن سے ہی تیار ہیں۔