ہیلن تھامس 1960ء کی دہائی کے آغاز سے وائٹ ہاؤس کا کوریج کرتی آرہی ہیں۔ اُن کی ریٹائرمنٹ اُن کے گذشتہ ہفتے دیے گئے بیان پر پیدا ہونے والے تنازع کے بعدعمل میں آئی۔
تھامس نے ربائی ڈیوڈ نیسناف کو ، جو ایک وڈیو جرنلسٹ بھی ہیں، وائٹ ہاؤس میں امریکی یہودیوں کی ثقافت کا دن منائے جانے کی تقریب میں یہ بیان دیا تھا۔
نیسناف کی طرف سے اسرائیل کے بارے میں عمومی تبصرہ کرنے کے جواب میں تھامس نے کہا کہ اسرائیل کو فلسطین سے نکل جانا چاہیئے جسے اُنھوں نے مقبوضہ علاقہ کہا۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلیوں کو جرمنی، پولینڈ یا امریکہ یا پھر کہیں اور واپس ہوجانا چاہیئے۔ نیسناف کی ویب سائیٹ پر جاری اِس وِڈیو بیان کی دنیا بھر میں تشہیر ہوئی اور اِسے ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا گیا۔
وائٹ ہاؤس کی پیر کے روز ہونے والی بریفنگ میں ہیلن تھامس، جنھیں وائٹ ہاؤس پریس کور کی لیڈر خیال کیا جاتا تھا، غیر حاضر رہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گِبز نے تھامس کے بارے میں ایک استفسار پر کہا کہ اُن کا بیان ناپسندیدہ تھا۔، اُنھیں معذرت کرنی چاہیئے تھی اور اُنھوں نے معذرت کی ہے۔ ظاہر ہے اُن کابیان یقینی طور پر میرے خیال میں یہاں موجود بیشتر افراد کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتا اور یقینی طور پر انتظامیہ کے خیالات کی بھی اِس سے نمائندگی نہیں ہوتی۔،
‘ہرسٹ گروپ آف نیوزپیپرز’ میں تھامس کا ہفتہ وار کالم شائع ہوتا تھا۔ اُس کی طرف سے بھی یہ اعلان کیا گیا ہے کہ تھامس جو اگست میں 90برس کی ہوں گی، فوری طور پر ریٹائر ہو رہی ہیں۔
تھامس نے اپنی ویب سائیٹ پر ایک بیان میں کہا کہ اُنھیں اپنے بیان پر بے حد افسوس ہے لیکن وہ اُن کے دلی اعتقاد کی عکاسی نہیں کرتا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا قیام اُسی وقت ممکن ہوگا جب تمام فریق باہمی احترام اور برداشت کی ضرورت کو تسلیم کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کی تنظیم نے بھی تھامس کے بیان کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی انتظامیہ کے دوران وائٹ ہاؤس کی کوریج کرنے والی پہلی خاتون کی حیثیت سے اُن کی کرسی پر اُن کے نام کی تختی لگی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے بریفنگ روم میں یہ واحد نامزد کرسی ہے۔
ہیلن تھامس کے بیان پر تنازعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اوباما انتظامیہ کو اسرائیل کی غزہ کی ناکہ بندی پر اپنے مؤقف کے بارے میں سوالات کا سامنا ہے اور اسرائیل کی طرف سے امدادی جہاز پر حالیہ حملے پر شدید نکتہ چینی کی جارہی ہے۔
مقبول ترین
1