بلوچستان میں امن وامان کی صورتِ حال ماضی کے مقابلے میں حالیہ چند ماہ کے دوران کافی بہتر ہوئی ہے۔ خصوصاً کوئٹہ میں آباد شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں پر حملے یا اُنھیں ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے جس کے باعث ہزارہ برادری کے مرد و خواتین اب ایک بار پھر کوئٹہ کے مرکزی علاقوں میں رات گئے تک گھومتے پھرتے اور خریداری کر تے نظر آتے ہیں۔
لیکن ہزارہ برادری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ امن وامان کی بحالی کے بعد اب انہیں بے روزگاری اور معاشی بدحالی اور خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کے لواحقین کو نفسیاتی امراض اور دیگر مسائل نے آ گھیرا ہے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 'بلوچستان تاجر فورم' کے صدر غلام مہدی کہتے ہیں کہ گزشتہ 15 برسوں کے دوران ان کی برادری کے لوگوں کے لیے اپنی جان بچانا تک مشکل ہوگیا تھا۔
ان کے بقول کئی افراد کو دُکانوں کے اندر گھس کر مارا گیا۔ شہر کے ہر علاقے میں ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا۔ بدامنی کے باعث صوبے کے مختلف علاقوں بشمول ژوب، لورالائی، خضدار اور مچھ وغیرہ میں آباد ہزارہ برادری کے لوگ اپنے اپنے علاقوں سے نکل کر کوئٹہ آبسنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے غلام مہدی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں بھی ہزارہ برادری کے افراد کو علمدار روڈ، مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن تک محصور ہونا پڑا۔
وہ کہتے ہیں کہ تاجر، سر کاری ملازمین اور طلبہ سب اپنے اپنے گھروں تک محدود ہوگئے تھے۔ حتیٰ کہ گزر بسر کے لیے لوگوں کو اپنی دُکانیں اور جائیدادیں تک فروخت کرنا پڑیں۔ اب اگرچہ صورتِ حال بہتر ہوگئی ہے لیکن برادری کے لوگ اتنے مقروض ہوچکے ہیں کہ اُن کے لیے زندہ رہنا محال ہوگیا ہے۔
ان کے بقول، "ان حالات میں حکومت کی مدد کے بغیر تاجر برادری کا اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرنا مشکل ہے۔ میں آپ کے تو سط سے حکومت سے درخواست کروں گا کہ ہماری برادری کے تاجروں کو نظر انداز نہ کرے۔ جو بزنس کمیونٹی ہے اُسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں حکومت مدد کرے۔ وہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔"
غلام مہدی کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے باوجود ہماری برادری کے لوگ اب بھی ہزار گنجی، سر یاب روڈ، سٹیلائٹ ٹاؤن اور بلوچستان یونیورسٹی سمیت دیگر علاقوں میں نہ کاروبار کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہاں جاسکتے ہیں۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت کی اتحادی جماعت 'ہزارہ ڈیموکر ٹیک پارٹی' کے رکن بلوچستان اسمبلی قادر نائیل کہتے ہیں کہ ایک منظم سازش کے تحت ہزارہ برادری کے لوگوں کی زندگیاں مشکل بنائی گئیں۔ ان کے بقول ان کی جماعت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو ان مسائل سے آگاہ کیا ہے جن کا ہزارہ برادری سامنا کر رہی ہے اور حکومت نے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے قادر نائیل کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا اُن میں سے بیشتر کے لواحقین اور رشتے دار نفسیاتی اور دیگر امراض کا شکار ہوگئے ہیں۔
ان کے بقول وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ہزارہ ٹاؤن میں ان لوگوں کی بحالی کے لیے ایک سینٹر قائم کرے، طلبہ کے لیے پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے فنی تعلیمی اداروں میں نشستیں مختص کی جائیں اور وظائف دیے جائیں اور ہزارہ تاجروں کو پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کا موقع دیا جائے۔
بلوچستان میں شیعہ ہزارہ بر ادری قیام پاکستان سے بھی پہلے سےآباد ہے ۔کو ئٹہ اور دیگر علاقوں میں برادری کے تقر یباً پانچ لاکھ لوگ آباد ہیں۔ بدامنی کے دور میں برادری کے ایک ہزار سے زائد بے گناہ لوگوں کو ماردیا گیا حتیٰ کہ حالات سے تنگ آکر بعض لوگ مغر بی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جبکہ بعض خاندان کو ئٹہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں جابسے ہیں۔