رسائی کے لنکس

گیان واپی مسجد تنازع: مسلمانوں کی مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے کارروائی کی استدعا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں وارانسی کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے گیان واپی مسجد کی مغربی دیوار کے ساتھ ہندو فریقین کی پوجا کرنے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کیے جانے پر مختلف حلقوں سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔

مقدمے میں ہندو فریقین کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وشو ہندو پریشد نے اس کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ مسلمانوں نے اسے مایوس کن فیصلہ قرار دیا ہے۔

اتر پردیش (یوپی) کے نائب وزیرِ اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے فیصلے کے بعد ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اشارہ دیا کہ اگلا نمبر متھرا کی شاہی عیدگاہ کا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’کروٹ لیتی، متھرا کاشی‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہر شخص کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔

ایک اور نائب وزیرِ اعلیٰ برجیش پاٹھک نے کہا کہ یوپی حکومت فیصلے کا خیرمقدم اور احترام کرتی ہے۔ ہم مستعد ہیں۔ نظم و نسق کو برقرار رکھا جائے گا جب کہ کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیگر ریاست کی سطح کے رہنماؤں نے بھی فیصلے پر خوشی ظاہر کی ہے۔

وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے انٹرنیشنل ورکنگ پریزیڈنٹ آلوک کمار نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پہلی رکاوٹ عبور کر لی گئی۔ ہم اس معاملے میں اپنی فتح دیکھ رہے ہیں، سچائی ہمارے ساتھ ہے۔

بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے دیگر رہنماوں نے بھی فیصلے پر خوشی ظاہر کی ہے۔ البتہ مسلمانوں نے اس فیصلے پر اظہارِ مایوسی کیا ہے۔

بھارتی مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ نے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے حکومت سے اپیل کی کہ وہ 1991 کے عبادت گاہ قانون کو سختی کے ساتھ نافذ کرے۔

یاد رہے کہ اس قانون کے مطابق جو عبادت گاہ 15 اگست 1947 کو جس حیثیت میں تھی، اسی حیثیت میں برقرار رہے گی۔ اس کا کردار تبدیل نہیں کیا جا سکتا تاہم بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔

اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جن میں عدالت سے اس قانون کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

بھارت کے سابق وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت نے عبادت گاہوں سے متعلق تنازعات کو ختم کرنے کے لیے 1991 میں یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا۔

وارانسی عدالت کے جج اے کے وشویش کے مطابق مذکورہ معاملہ اس قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں کہا کہ بابری مسجد تنازعے کے دوران 1991 میں منظور کیے جانے والے عبادت گاہوں کے قانون میں کہا گیا ہے کہ اب کسی بھی عبادت گاہ کے بارے میں کوئی تنازع پیدا نہیں کیا جا سکتا لیکن وارانسی کی عدالت نے اس قانون کو نظرانداز کر دیا۔ان کے بقول اس سے ملک میں اتحاد و یکجہتی کو نقصان پہنچے گا۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب سپریم کورٹ نے 2019 میں بابری مسجد معاملے میں فیصلہ سنایا تھا، تو اس نے اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کی موجودگی میں کوئی دوسرا تنازع کھڑا نہیں کیا جا سکتا البتہ وارانسی کی عدالت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

ان کے مطابق عدالت نے کہا کہ درخواست گزاروں نے صرف پوجا کی اجازت طلب کی ہے، انہوں نے عبادت گاہ کے مالکانہ حقوق نہیں مانگے اور نہ ہی وہ عبادت گاہ کی حیثیت بدلنا چاہتے ہیں البتہ یہ معاملہ بھی 1991 کے قانون کے تحت آیا ہے۔

انہوں نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے مسلم فریقین کی یہ بات بھی رد کی کہ یہ معاملہ وقف ایکٹ 1995 اور یوپی شری کاشی وشوناتھ ٹیمپل ایکٹ 1983 کے تحت آتا ہے۔

ان کے بقول اگر سپریم کورٹ نے وارانسی کے فیصلے پر پابندی نہیں لگائی تو پینڈورا باکس کھل جائے گا اور نہ صرف یہ کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ بلکہ دیگر مساجد کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ وشو ہندو پریشد نے تو سیکڑوں مسجدوں کی فہرست تیار کر رکھی ہے۔ ان کے مطابق مسلمانوں کی جانب سے جلد ہی اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت بھارتی عدلیہ کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو انہیں اندیشہ ہے کہ ملک کے بڑے طبقے کا اعتماد عدالتوں پرسے ختم ہو جائے گا۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اب نئے نئے مقدمات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ان کے بقول اس فیصلے کے بعد ملک 1980 اور 1990 کے دور میں پہنچ جائے گا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ مقامی عدالت ابتدا ہی میں اس تنازعے کی جڑ کو ختم کر دے گی لیکن اب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ معاملہ بھی بابری مسجد ہی کی طرح بنتا جائے گا۔

انہوں نے بھی 1991 کے عبادت گاہ قانون کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا کہ اب اس قانون کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ اس فیصلے سے ملک کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ مسلم فریقین کو اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے۔

حزبِ اختلاف نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کانگریس سمیت کسی بھی سیاسی جماعت نے اس فیصلے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔

اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے جب اس بارے میں کانگریس کے بعض رہنماؤں سے ان کا ردِ عمل جاننے کی کوشش کی، تو انہوں نے کہا کہ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ معاملہ عدالت میں ہے۔ جب کچھ ہوگا تب ہم ردِ عمل دیں گے۔

قبل ازیں مئی میں جب یہ معاملہ سامنے آیا تھا تو کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم نے 1991 کے عبادت گاہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمام عبادت گاہیں اس قانون کے دائرے میں آتی ہیں۔ ہمیں کسی بھی عبادت گاہ کے کردار کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے مزید تنازعات پیدا ہوں گے۔ تنازعات کو ختم کرنے کے لیے ہی یہ قانون منظور کیاگیا تھا۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی سہولت کے اعتبار سے مؤقف اختیار کرتی ہیں۔

سینئر تجزیہ کار آنند کے سہائے کے مطابق اس وقت ملک میں جو ماحول بنا دیا گیا ہے، اس میں کوئی بھی سیاسی جماعت کسی ایسے معاملے میں کھل کر بولنے کے لیے تیار نہیں ہے، جس پر اسے ہندو مخالف پارٹی قرار دے دیا جائے۔

ان کے خیال میں شاید یہی وجہ ہے کہ حزبِ اختلاف نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اسے یہ ڈر ہے کہ وہ اگر فیصلے پر تنقید کرے گی، تو اس کے ہندو دشمن ہونے کا پروپیگنڈا کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کانگریس نے مسلمانوں کے مسائل پر بیانات دیے تھے، تو اسے بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کی پارٹی کہا جانے لگا تھا، جس کے بعد کانگریس حساس یا متنازع معاملات پر بہت محتاط ہو کر بیان دیتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالتوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے کسی فیصلے سے ملک کا ماحول متاثر نہ ہو اور کشیدگی پیدا نہ ہو۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG