رسائی کے لنکس

گوگل بمقابلہ امریکہ: اینٹی ٹرسٹ ٹرائل کمپنی کے لیے کیا مشکلات پیدا کرسکتا ہے؟


امریکہ کی ٹیکنالوجی کمپنی 'گوگل' کو ایک بڑے اینٹی ٹرسٹ ٹرائل کا سامنا ہے جس میں امریکی حکومت اور گوگل آمنے سامنے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس مقدمے کا آغاز منگل سے ہو رہا ہے جس میں وفاقی ریگولیٹرز گوگل کی انٹرنیٹ سرچ انجن پر بالادستی کے خاتمے کے لیے دلائل دیں گے جب کہ گوگل اپنے موقف کا دفاع کرے گا۔

امریکہ میں کاروباری مقابلے کی شفافیت اور صارفین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کو ’اینٹی ٹرسٹ لاز‘ کہا جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کی کاروباری پریکٹسز بھی اس کے دائرے میں آتی ہیں۔

امریکہ کے محکمۂ انصاف نے تقریباً تین سال قبل اس وقت کے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے دور میں گوگل کے خلاف ایک اینٹی ٹرسٹ مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ گوگل نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں غیر منصفانہ فوائد حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ سرچ میں اپنی برتری کا استعمال کیا ہے۔

واضح رہے کہ گوگل کی مالک کمپنی ’الفابیٹ‘ کی مالیت 17 کھرب ڈالر ہے اور اس کے ایک لاکھ 82 ہزار ملازمین ہیں۔

اس مقدمے میں آئندہ 10 ہفتوں میں وفاقی وکیل اور ریاستی اٹارنی جنرل یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ گوگل نے بے تحاشہ جگہوں اور ڈیوائسز پر اپنے سرچ انجن کو ڈیفالٹ رکھوایا ہے اور اس طرح اپنی اس برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مارکیٹ میں دھاندلی کا مرتکب ہوا ہے۔

اس مقدمے میں گوگل اور اس کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ سمیت دیگر طاقت ور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے داروں کوبیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب بھی کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر عدالت الفابیٹ کے سی ای او سندر پچائی کو بھی طلب کرسکتی ہے۔

حکومتی وکلا کا الزام ہے کہ گوگل اپنی فرنچائز کو ایک طرح کی معاونتی رشوت کے ذریعے تحفظ فراہم کر رہا ہے اور آئی فونز اور ایپل کے سفاری اور موزیلا کے فائر فاکس جیسے ویب براؤزرز پر ڈیفالٹ سرچ انجن بننے کے لیے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔

ریگولیٹرز کی جانب سے یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ گوگل نے مارکیٹ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے غیرقانونی طریقے سے دھاندلی کی ہے۔ گوگل پر الزام ہے کہ اس نے اسمارٹ فون مینوفیکچرز کو یہ کہا کہ اگر وہ اینڈرائڈ ایپ اسٹور تک مکمل رسائی چاہتے ہیں تو اسمارٹ فونز کے لیے اینڈرائڈ سافٹ ویئر کے ساتھ اس کےسرچ انجن کو بھی شامل کریں۔

البتہ گوگل کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سرچ مارکیٹ کا تقریباً 90 فی صد حصہ رکھنے کے باوجود اسے وسیع پیمانے پر مسابقت کا سامنا ہے۔ اس کے حریفوں کی رینج سرچ انجن جیسے مائیکروسافٹ کے ’بنگ‘ سے لے کر ایمازون جیسی ویب سائٹ تک ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق گوگل ممکنہ طور پر یہ موقف اختیار کرے گا کہ اس کا بہت زیادہ مارکیٹ شیئر کسی قانون شکنی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے سرچ انجن کی رفتار، مؤثر اور مفت ہونے کی وجہ سے ہے۔

گوگل کے وکلا یہ دلائل دیں گے کہ صارفین اپنی ڈیوائسز سے گوگل ایپ ڈیلیٹ کرسکتے ہیں یا مائیکروسافٹ بنگ، یا ’یاہو‘ کو متبادل سرچ انجن کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ گوگل کا موقف رہا ہے کہ صارفین اس کے سرچ انجن کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ اس پر انہیں اپنے سوالات کے جواب تلاش کرنے میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

امکان ہے کہ امریکی ڈسٹرکٹ جج امت مہتا آئندہ برس کے اوائل تک ٹرائل پر کوئی فیصلہ جاری نہیں کریں گے۔ لیکن اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ گوگل نے قانون توڑا ہے تو ایک اور ٹرائل میں یہ فیصلہ ہوگا کہ گوگل کے خلاف کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔

گوگل کے لیے یہ مشکل ہوسکتی ہے کہ اس کے اختیار کو محدود کردیا جائے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز پر گوگل سرچ انجن کو ڈٖیفالٹ بنانے کے معاملے پر گوگل کو ایپل اور دیگر کمپنیوں کو ادائیگی سے روکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG