طالبان شورش پسندوں نے شمالی افغانستان میں ایک فوجی اڈے پر قبضہ جما لیا ہے، جس میں درجنوں سرکاری فوجی ہلاک ہوئے یا پکڑ لیے گئے ہیں۔
پیر کی رات گئے صوبہٴ فریاب کے گورماچ ضلعے میں کیمپ چیچنیا پر قبضے سے قبل دو روز تک گھمسان کی لڑائی جاری رہی۔
سرکاری حکام نے بتایا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کا اڈا اُس وقت چھینا گیا جب فوجی نئی کمک اور فضائی کارروائی کی مدد ملنے سے محروم رہے، جب کہ اسلحہ و بارود اور دیگر رسد ختم ہو چکی تھی۔
علاقائی فوج اور سرکاری اہل کاروں نے منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ سے اس بات کی تصدیق کی کہ تعینات 70 فوجیوں میں سے 40 نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ جھڑپوں کے دوران باقی فوجی یا تو ہلاک ہوئے یا قریبی پہاڑیوں کی طرف نکل گئے۔
چیچنیا کیمپ پر قبضہ ایسے میں ہوا ہے جب امریکی فضائی کارروائی اور فوجی مشیروں کی مدد سے افغان سلامتی افواج نے حکمت عملی کے حامل جنوب مشرقی شہر، غرنی کا پھر سے کنٹرول سنبھال لیا، جس سے قبل کئی روز تک طالبان کے ساتھ گھمسان کی لڑائی جاری رہی۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان، جاوید غفور نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے شہر کے وسطی علاقوں کو باغیوں سے محفوظ بنا لیا ہے، جب کہ غزنی کے مضافات میں جنگجوؤں کا صفایا کرنے کی کارروائی جاری ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق، صوبائی گورنر وحیداللہ کلیم زئی نے ٹیلی فون پر ’وائس آف امریکہ‘ سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ باغیوں کو دارالحکومت سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’’اس وقت افغان سکیورٹی فورسز شہر کے چار علاقوں میں باغیوں کو باہر نکالنے کی کارروائیاں جاری ہیں، جب کہ غزنی میں زندگی معمول پر آتی جا رہی ہے‘‘۔
طالبان کی جانب سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
وائس آف امریکہ کی نفیسہ ہودبھائی نے فریاب کی صورت حال پر ایک سینیر صحافی سمیع یوسف زئی سے بات کی۔ تفصیل اس آڈیو لنک میں۔
فوجی اہل کاروں نے تصدیق کی ہے کہ جمعے کے روز شہر میں طالبان کے حملے کے نتیجے میں 100 افغان فوجی اور پولیس اہلکار اور 30 شہری ہلاک ہوئے، جب کہ مقامی ذرائع ابلاغ نے سرکاری افواج کی ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی ہے۔
وزیر دفاع جنرل طارق شاہ بہرامی نے کہا ہے کہ سرکاری فورسز نے، جنہیں اتحادیوں کی فضائی مدد حاصل تھی، تقریباً 200 شورش پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں عرب، چیچن اور پاکستانی قومیتوں کے جنگجو شامل تھے۔
جنرل بہرامی نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں شہر سے طالبان کا صفایا کرنے کے بعد صوبائی دارالحکومت کی صورت حال کنٹرول میں آ جائے گی۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے فوری طور پر سرکاری دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے شہر کے مختلف حصوں میں سرکاری فورسز کو اپنے محاصروں میں لے رکھا ہے۔
آزاد ذرائع سے ان دعوؤں کی تصدیق ممکن نہیں ہے کیونکہ طالبان میدان جنگ میں اپنی کامیابیوں کی تفصیلات اکثر بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔
پیر کے روز امریکی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شہر بدستور افغان فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی مشیر افغان فورسز کی معاونت کر رہے ہیں اور جمعے کے روز سے جاری فضائی حملوں سے طالبان کی طاقت کو بہت دھچکا لگا ہے اور 140 سے زیادہ طالبان مارے جا چکے ہیں۔
اتوار کے روز غزنی سے اپنی جانیں بچا کر نکلنے والے عام شہریوں نے میڈیا کو بتایا کہ شہر کے زیادہ تر حصوں پر باغیوں کا قبضہ ہے اور اب لڑائیاں صوبائی گورنر اور صوبائی پولیس کے ہیڈکوارٹرز کے آس پاس ہو رہی ہیں۔
طالبان نے غزنی کی طرف کمک لے جانے والے ایک فوجی قافلے کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا ہے کہ پیر کے روز لڑائیوں میں ایک وقفے کے دوران انہوں نے صوبائی اسپتال میں ایندھن اور ہنگامی نوعیت کی ادویات پہنچائیں۔
غزنی کی آبادی تقریبا دو لاکھ 70 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ جنگ کی وجہ سے شہر میں ٹیلی مواصلاتي سسٹم اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے جس سے پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے اور خوراک کا ذخیرہ کم پڑتا جا رہا ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی ہمددردی کے کوآرڈی نیٹر رک پیپرکون نے پیر کے روز دونوں فریقوں سے یہ اپیل کی کہ وہ غزنی کے محصور شہریوں کی تکالیف دور کرنے اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کریں۔