رسائی کے لنکس

جرمنی اپنے تمام جوہری بجلی گھر کیوں بند کر رہا ہے؟


جرمنی کے شمالی شہر بروک ڈولف میں قائم جوہری بجلی گھر بند کیے جانے والے چھ بجلی گھروں میں شامل ہے۔ فائل فوٹو
جرمنی کے شمالی شہر بروک ڈولف میں قائم جوہری بجلی گھر بند کیے جانے والے چھ بجلی گھروں میں شامل ہے۔ فائل فوٹو

جرمنی نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ جوہری بجلی گھروں کو خطرناک سمجھتا ہے اور اپنے ملک میں قائم تمام جوہری بجلی گھروں کو اس سال کے آخر تک بند کر دے گا۔

جرمنی میں جوہری توانائی سے چلنے والے چھ بجلی گھر ہیں، جن میں سے تین بجلی گھر اس نے گزشتہ ہفتے بند کر دیے تھے، جب کہ باقی رہ جانے والے تین جوہری بجلی گھر رواں سال کے آخر تک بند کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

جرمنی کا شمار یورپ کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ سن 2011 تک وہاں بجلی کی پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ جوہری بجلی گھروں سے حاصل کیا جاتا تھا اور ملک میں 17 جوہری ری ایکٹر بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔

سویت دور کے یوکرین میں چرنوبل کے جوہری پلانٹ کے حادثے کے بعد، جس سے خارج ہونے والی تابکاری نے ایک وسیع علاقے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے، جرمنی نے بجلی کے لیے اپنی توجہ دوسرے ذرائع پر مبذول کر لی۔ گزشتہ سال کے آخر تک ملک میں چھ جوہری بجلی گھر مجموعی پیداوار میں 10 فی صد حصہ ڈال رہے تھے اور تقریباً 41 فی صد بجلی کوئلے، قدرتی گیس اور معدنی ایندھن سے پیدا کی جا رہی تھی، جب کہ بجلی کی کل پیداوار کا 46 فی صد حصہ قابل تجدید اور شفاف توانائی کے ذرائع سے حاصل ہو رہا تھا۔

معدنی ایندھن کے مقابلے میں ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی ماحول دوست ہوتی ہے۔ فائل فوٹو
معدنی ایندھن کے مقابلے میں ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی ماحول دوست ہوتی ہے۔ فائل فوٹو

جرمنی نے کہا ہے کہ وہ 2030 تک کوئلے کی بجلی پر اپنا انحصار ختم کر دے گا اور کاربن گیسوں کا اخراج گھٹانے کے لیے شفاف توانائی کی جانب منتقل ہونے کا عمل جاری رکھے گا۔

دوسری جانب جرمنی کے پڑوسی اور یورپ کے ایک اور اہم صنعتی ملک فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ بجلی کی مستقبل کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے موجودہ جوہری بجلی گھروں کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے جوہری بجلی گھر تعمیر کرے گا۔

فرانس کے برعکس جرمنی، قدرتی گیس پر اپنا انحصار بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے متبادل ذرائع تلاش کرنا چاہتا ہے جس سے آلودگی نہ پھیلے۔

جاپان کا فوکو شمیا جوہری بجلی گھر جس کے حادثے سے بڑے پیمانے پر تابکاری پھیلی۔ فائل فوٹو
جاپان کا فوکو شمیا جوہری بجلی گھر جس کے حادثے سے بڑے پیمانے پر تابکاری پھیلی۔ فائل فوٹو

یورپی یونین کی دو سب سے بڑی معیشتوں کی جانب سے توانائی کے حصول کے لیے مخالف راستے اختیار کرنے کے نتیجے میں یورپی یونین بلاک کے ایگزیکٹو کمیشن کے لیے ایک مشکل صورت حال پیدا ہو گئی ہے، کیونکہ یورپی بلاک جوہری توانائی اور قدرتی گیس دونوں کے استعمال کو بعض شرائط کے تحت سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے پائیدار تصور کرتا ہے۔

جرمن حکومت کے ترجمان سٹیفن ہبس ٹریٹ نے برلن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم جوہری ٹیکنالوجی کو خطرناک سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے تابکاری اثرات ہزاروں نسلوں تک برقرار رہتے ہیں۔ ہم یورپی کمشن کے جوہری توانائی سے متعلق بیان کو مسترد کرتے ہیں۔

اگرچہ جرمنی گوبل وارمنگ اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں بہت حساس ہے اور اسی لیے وہ توانائی کے اپنے شعبے سے کوئلے کو خارج کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے باوجود اسے ماحولیات کے ماہرین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کے حصول کے لیے قدرتی گیس پر انحصار کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اسے بھی جلانے سے کاربن گیسیں خارج ہوتی ہیں، اگرچہ ان کی مقدار کوئلے کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

اس کے جواب میں جرمنی کا موقف ہے کہ قدرتی گیس کا استعمال تقریباً پندرہ سال کی درمیانی مدت کے لیے ہے، کیونکہ ان کا ملک 2045 کے لگ بھگ بجلی پیدا کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی اور آلودگی پیدا نہ کرنے والے متبادلات پر منتقل ہو جائے گا۔ اس کے بعد جرمنی یورپ کا ایک ایسا سب سے ترقی یافتہ صنعتی ملک بن جائے گا جس میں قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانے والی کوئی گیس خارج نہیں ہو گی۔

روس اور جاپان کے جوہری بجلی گھروں کے حادثات کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے ناقابل تلافی نقصانات کے بعد جوہری بجلی گھروں کو انسانیت کی بقا کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے، جب کہ اس سے پہلے جوہری بجلی کو توانائی کا ایک سستا، قابل بھروسہ اور ماحولیاتی اعتبار سے محفوظ ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور ترقی یافتہ ممالک جوہری بجلی گھر لگانے کو ترجیج دیتے تھے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی سال دو ہزار اکیس کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں زیر استعمال جوہری بجلی گھروں کی کل تعداد 442 ہے۔ سب سے زیادہ جوہری بجلی گھر امریکہ میں ہیں جن کی تعداد 94 ہے، اس کے بعد فرانس کا نمبر آتا ہے جہاں 56 ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں۔ چین کے جوہری بجلی گھروں کی تعداد 50 اور اس کے پڑوسی ملک بھارت میں 22 ہیں، جب کہ پاکستان میں بھی 5 جوہری بجلی گھر قائم ہیں۔

(اس مضمون کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG