بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جنوری 2015 میں علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مخلوط حکومت بنانا مجبوری تھی، یہ فیصلہ "تیل اور پانی کے ملاپ" کے مترادف تھا۔
جمعے کو بھارت کے چند سرکردہ ایڈیٹرز سے گفتگو میں وزیراعظم مودی کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں جداگانہ نظریات رکھتی ہیں لیکن چونکہ ریاستی اسمبلی کے لیے نومبر، دسمبر 2014 میں کرائے گئے انتخابات میں پی ڈی پی کو 28 اور بی جے پی کو 25 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اس لیے دونوں کے درمیان اتحاد قائم کر کے مخلوط حکومت جمہوری مجبوریوں کے تحت بنائی گئی کیونکہ عوامی مینڈیٹ یہی تھا۔"
انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ ہاتھ اس لیے بھی ملایا تھا کیونکہ اُس وقت اس جماعت کی سربراہی مفتی محمد سعید کر رہے تھے جو ایک تجربہ کار سیاست دان تھے۔
شورش زدہ ریاست میں مفتی محمد سعید کی سربراہی میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت مارچ 2015 میں قائم کی گئی تھی۔ مفتی سعید جنوری 2016 میں انتقال کر گئے اور تین ماہ کی تاخیر کے بعد حلیف جماعتوں نے اُن کی بیٹی اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کی سربراہی میں ایک بار پھر مخلوط حکومت بنائی تھی۔
جون 2018 میں بی جے پی حکومت سے یہ کہہ کر الگ ہو گئی کہ پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد ناقابل تسلیم معاملہ بن گیا ہے۔ ممبران اسمبلی کی حمایت کھو دینے کے ساتھ ہی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے استعفیٰ دے دیا تھا اور اگلے دن ریاست میں گورنر راج نافذ کیا گیا جسے چھ ماہ بعد صدر راج میں بدل دیا گیا اور یہ ہنوز جاری ہے۔
تین سال سے زائد عرصے تک ایک دوسرے کی حلیف رہنے والی پی ڈی پی اور بی جے پی، اب مختلف امور پر کھلے عام اور شدت کے ساتھ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ وزیرِ اعظم مودی کا بیان اسی پس منظر میں سامنے آیا ہے۔
وزیرِ اعظم کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے پی ڈی پی کے ایک سینئر لیڈر اور سابق وزیر نعیم اختر نے کہا، " پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کو تیل اور پانی کا ملاپ قرار دینے والے مودی کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ اس میں کس طرح کی ملاوٹ شامل تھی۔ اُن کے بیان سے یہ بات آشکارا ہوئی ہے کہ دراصل ملاوٹ اُن کی سوچ اور نیت میں تھی۔ ہم نے اُن کے ساتھ نیک نیتی سے ہاتھ ملایا تھا تاکہ ریاست جموں و کشمیر اور اس کے عوام کے مسائل کو حل کیا جاتا"۔
اس دوران وارانسی کے پارلیمانی حلقے میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ کشمیر کے مسئلے کو سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے 'انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت ' کے نظریے کے تحت ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کے معاملے میں انُہیں کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ماضی میں کشمیر کے کئی علاقوں میں وقت گزارا ہے اور وہ ریاست کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "مجھے کشمیر کے بارے میں پہلے ہی ادراک ہے۔ مجھے کشمیر کو سمجھنے کے لیے پانچ سال حکومت میں رہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں ماضی میں کئی مرتبہ کشمیر گیا ہوں اور اسے اور اس کے لوگوں کو بخوبی جانتا ہوں"۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلعے میں 14 فروری کو کیے گئے دہشت گرد حملے کے بعد ریاست میں 42 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا، "گزشتہ پانچ برس میں بھارت میں کوئی دہشت گرد حملہ نہیں ہوا ہے۔ یہ (دہشت گردی) جموں و کشمیر کے چند حصوں تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے پلوامہ میں ہمارے 40 جوانوں (پولیس اہل کاروں) کو ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کے بعد سے اب تک تقریبا"42 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ یہ ہمارے کام کرنے کا طریقہ ہے۔ ایک خوش حال بھارت کے لیے سیکورٹی ضروری ہے"۔