رسائی کے لنکس

’ خبر لیک‘ کی تحقیقاتی کمیٹی کا پہلا اجلاس


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گزشتہ ماہ کے اواخر میں حکومت نے یہ کہتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید سے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان واپس لے لیا تھا کہ انھوں نے یہ مبینہ غلط خبر رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ایک اہم بند کمرہ اجلاس کی مبینہ معلومات کے افشا ہونے کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے جمعرات کو اپنا کام شروع کر دیا اور اس کا پہلا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کمیٹی کو بریفنگ دی، سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق کمیٹی کی طرف سے وزیر داخلہ سے کہا گیا تھا کہ وہ اب تک تحقیقات سے آگاہ کریں۔ وزارت داخلہ کی طرف سے جمع کیے گئے ابتدائی شواہد پر مبنی ایک رپورٹ سے عسکری قیادت کو بھی آگاہ کیا جا چکا ہے۔

کمیٹی کی سربراہی سابق جج عامر رضا خان کر رہے ہیں جب کہ اس میں فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو کے ایک، ایک رکن کے علاوہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کے محتسب اعلیٰ بھی شامل ہیں۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں موقر انگریزی روزانہ "ڈان" میں خبر شائع ہوئی تھی کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں سیاسی قیادت نے عسکری قیادت پر زور دیا کہ ملک میں غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے بصورت دیگر پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

گو کہ سیاسی و عسکری عہدیداروں کی طرف سے اس خبر کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا گیا تھا لیکن اخبار کا اصرار تھا کہ اس نے حقائق کی جانچ کے بعد ہی یہ خبر شائع کی تھی۔

گزشتہ ماہ کے اواخر میں حکومت نے یہ کہتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید سے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان واپس لے لیا تھا کہ انھوں نے یہ مبینہ غلط خبر رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

حکومت کو خبر رکوانے سے متعلق اپنے موقف پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ صحافتی تنظیموں اور حزب مخالف کا کہنا تھا کہ خبر رکوانے کی بجائے حکومتی عہدیداروں کو اس کے حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔

حکومت نے اس خبر کے افشا ہونے کی تحقیقات کرنے کے لیے کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تیس دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ لیکن حزب مخالف کی طرف سے اس کمیٹی کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کے نام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ ان کے مبینہ طور پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ مراسم ہیں۔

تاہم حکومتی عہدیدار اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمیٹی کسی طور پر جانبدار نہیں ہے اور حزب مخالف اس معاملے کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

جمعرات کو ہی حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا۔

"جس کو حکومت اگر کسی عہدے پر بٹھاتی ہے ان کی شرافت، قابلیت اور ایمانداری کی وجہ سے تو کیا وہ اس کے بعد جو کام کرتے ہیں وہ حکومت کی مرضی سے ہو یہ غلط سوچ ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی علیحدہ سوچ آزادانہ سوچ ہے، ان پر الزام دینا غیر مناسب ہے۔"

تاہم حزب مخالف کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی تشکیل پر اپوزیشن سے مشاورت کر لی جاتی تو معاملے کی شفافیت پر سوال نہ اٹھتے۔

XS
SM
MD
LG