رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: فوجی اہلکاروں کا پولیس اسٹیشن پر دھاوا، تین لیفٹننٹ کرنلز کے خلاف مقدمہ درج


  • بھارتی فوج کے افسران اور اہلکاروں پر پولیس اہلکاروں پر تشدد کا الزام
  • تین لیفٹننٹ کرنلز سمیت 16 اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج
  • واقعے میں مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں میں سے تاحال کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
  • کپوارہ پولیس کے اہلکاروں نے چند روز قبل فوج کے ایک اہلکار کے گھر پر ریڈ کیا تھا۔

سرینگر -- بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے فوج کے تین افسران سمیت 16 اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ فوجی افسران اور اہلکاروں پر پولیس اسٹیشن کے اندر زبردستی گھس کر پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے کا الزام ہے۔

ایف آئی آر میں تشدد کے علاوہ ایک ہیڈ کانسٹیبل کے اغوا اور موبائل فون چھیننے کے بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

دارالحکومت سرینگر میں پولیس عہدیداروں نے کہا کہ منگل 28 مئی کی رات پیش آنے والے اس واقعے کی تحقیقات ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پیرزادہ مجاہد الحق کی سربراہی میں قائم کی گئی ایک خصوصی ٹیم کر رہی ہے۔

تاہم واقعے میں مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں میں سے تاحال کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ بھارتی فوج اور مقامی پولیس ذرائع کے مطابق دونوں طرف کے اعلیٰ افسران اس واقعے کے حوالے سے ایک دوسرے کے مسلسل رابطے میں ہیں اور معاملے کو رفع دفع کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

عہدے داروں کے مطابق کپوارہ پولیس تھانے کی ایک ٹیم نے اس ہفتے کے شروع میں ضلع کے بٹہ پورہ علاقے میں 160ٹیریٹورئل آرمی کے ایک سپاہی کے گھر پر ایک کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران اسے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تھا۔ لیکن پولیس کی یہ کارروائی اس کے ساتھیوں پر ناگوار گزری اور انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لے کر پولیس تھانے پردھاوا بول دیا۔

ایف آئی آر میں مزید کیا ہے؟

فوجی اہلکاروں کے خلاف سرحدی شہر کپوارہ کے ایک پولیس تھانے میں اقدامِ قتل، ہلڑ بازی، اغوا اور ڈکیتی جیسے جرائم سے متعلق تعزیراتِ ہند اور آرمز ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ منگل کو رات نو بج کر 40 منٹ پر بھارتی فوج کی 160 ٹیریٹوریل آرمی کے ایک دستے نے پولیس اسٹیشن پر دھاوا بولا۔

فوجی اہلکاروں کی قیادت لیفٹننٹ کرنلز انکیت سود، راجو چوہان اور نکھل کر رہے تھے جن پر الزام ہے کہ اُنہوں نے پولیس تھانے میں زبردستی داخل ہو کر وہاں موجود اہلکاروں کو لاتیں ماریں اور بندوقوں اور لاٹھیوں سے مارا پیٹا۔

پولیس کے مطابق اس واقعے میں پانچ اہلکار زخمی ہو گئے جن میں سے چار کانسٹیبلز، سلیم مشتاق اور ظہور احمد اور اسپیشل پولیس آفیسرز امتیاز احمد ملک اور رئیس خان کو بہتر علاج و معالجے کے لیے سرینگر کے شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں داخل کرانا پڑا۔

ایف آئی آر میں مزید کیا گیا ہے کہ اس حملے کے بارے میں اطلاع ملنے پر پولیس کے اعلیٰ افسران کمک کے ساتھ پولیس تھانے پر پہنچے اور جب فوجیوں نے انہیں وہاں آتے دیکھا تو انہوں نے اپنے ہتھیار لہرائے۔

زخمی اہلکاروں اور پولیس تھانے کے ایس ایچ او انسپکٹر محمد اسحاق کے موبائل فون ان سے چھین لیے اور پولیس تھانے سے فرار ہونے کے دوران ہیڈٖ کانسٹیل غلام رسول کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس کے مطابق اغوا کیے گیے پولیس اہلکار کو اگلی صبح تین بجے کے بعد ہی رہا کیا گیا۔

سرینگر میں بھارتی فوج کے ایک ترجمان لیفٹننٹ کرنل ایم کے ساہو نے پولیس تھانے پر فوجیوں کی طرف سے دھاوا بولنے کے واقعے کے بارے میں مقامی ذرائع ابلاغ میں چھپی خبروں کی تردید کی تھی۔

فوجی ترجمان نے بدھ کو جاری کیے گیے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ "پولیس اور فوجی اہلکاروں کے درمیان جھگڑا ہونے اور اس دوران پولیس اہلکاروں کی مارپیٹ کرنے کے بارے میں رپورٹیں حیران کن اور غلط ہیں۔ پولیس اہلکاروں اور ٹیریٹورئل آرمی کے یونٹ کے درمیان ایک آپریشنل معاملے پر پیدا شدہ معمولی اختلافات کو دوستانہ طور پر دور کردیا گیا ہے۔"

سرینگر میں بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ فوج اس واقعے کے سلسلے میں جموں و کشمیر پولیس کے ہم منصبوں کے رابطے میں ہے اور معاملے کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس دوران پولیس تھانے میں پیش آئے واقعے کی سی سی ٹی وی کوریج وائرل ہو گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG