امریکہ میں سرکاری سطح پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اینٹی وائرل دوا ریمڈیسیوئیر سے کرونا وائرس کے مریض جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
امکان ہے کہ امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جلد کرونا وائرس کے علاج کے لیے ریمڈیسیوئیر کے استعمال کی منظوری دے گی۔ اگرچہ اس بارے میں مزید تحقیق کی جائے گی لیکن ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہونے کی وجہ سے صحت عامہ کے ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ اس دوا سے بہت سے مریضوں کی جان بچائی جاسکے گی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیشنل ایجنسی آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزز کے سربراہ ڈاکٹر فاؤچی نے وائٹ ہاؤس میں نیوز بریفنگ کے دوران اس دوا کے بارے میں اچھی امیدوں کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر فاؤچی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کے ادارے نے ابھی اس دوا کا باقاعدہ جائزہ لینا ہے لیکن انھوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ مریضوں کی جلد صحت یابی میں کردار ادا کرسکتی ہے۔
ڈاکٹر فاؤچی نے بتایا کہ وفاقی تجربات سے معلوم ہوا کہ ریمڈیسیوئیر کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کا عرصہ ایک تہائی کم کرسکتی ہے۔ اسپتال میں داخل مریضوں کو صحت یاب ہونے میں 15 دن لگتے ہیں لیکن جن مریضوں کو ریمڈیسیوئیر دی گئی، وہ 11 دن میں صحت یاب ہوگئے۔
ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ اگرچہ 31 فیصد کا تناسب 100 فیصد کے مقابلے میں خاصا کم ہے لیکن یہ ثابت ہونا بہت زیادہ اہم ہے کہ کوئی دوا اس وائرس کو روک سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک اچھی علامت ہے۔ یقینی طور پر مثبت۔ یہ ایک بہت اچھا واقعہ ہے۔
دوا کے تجرباتی استعمال کا آغاز فروری میں کیا گیا تھا اور پہلے مریض کا تعلق تفریحی بحری جہاز ڈائمنڈ پرنسس سے تھا جس نے جاپان سے وطن واپسی کے بعد اس ٹرائل میں شرکت کی تھی۔ ماہرین نے یہ دوا صرف اسپتال میں داخل مریضوں کو دی ہے اور جو مریض اسپتال میں داخل نہیں، وہ یہ استعمال نہیں کرسکتے۔
ریمڈیسیوئیر بنانے والی کمپنی گلیئیڈ سائنسز نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ڈاکٹر فاؤچی کے انسٹی ٹیوٹ میں اس تحقیق سے سامنے آںے والے مثبت نتائج سے آگاہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تجربے نے ابتدائی نتائج حاصل کیے ہیں اور ڈاکٹر فاؤچی کا ادارہ جلد اس بارے میں تفصیل بیان کرے گا۔
کمپنی کے ایک نمائندے نے واشنگٹن پوسٹ کو ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وبا کے آغاز سے ہم انتظامیہ، حکام اور عوام کو شفاف اور بروقت معلومات سے مطلع کررہے ہیں۔ اس کے مطابق ریمڈیسیوئیر ابھی تک امریکہ یا دنیا میں کہیں بھی علاج کے لیے منظور شدہ نہیں اور اس کے کرونا وائرس کے لیے محفوظ یا موثر ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق وہ کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتے کہ وفاقی حکومت اس بارے میں کیا فیصلہ کرنے والی ہے۔
ایف ڈی اے سے منظوری کی صورت میں دوا کی طلب بڑھنے سے اس کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ دوا کی پیداوار بڑھارہی ہے اور مئی کے آخر تک 15 لاکھ خوراکیں دستیاب ہوں گی جو ایک لاکھ 40 ہزار مریضوں کے لیے کافی ہوں گی۔
گلیئیڈ سائنسز نے ریمڈیسیوئیر کو ایبولا وائرس کے علاج کے لیے بنایا گیا تھا لیکن افریقہ میں اس کے کلینکل تجربات کے نتائج حوصلہ شکن تھے۔
اس سے پہلے چین میں ہوئی ایک تحقیق لانسیٹ میں شائع ہوئی تھی جس میں شدید بیمار افراد کے لیے اس دوا کے مفید ہونے پر سوال اٹھائے گئے تھے لیکن دیگر مریضوں کے لیے فائدہ مند ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا گیا تھا۔ یہ تحقیق ادھوری تھی کیونکہ اس میں زیادہ مریض شامل نہیں ہوئے تھے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی دو رپورٹس کے مطابق اس دوا کو کرونا وائرس کے چند مریضوں پر آزمایا گیا اور وہ جلد صحت یاب ہوگئے جس کے بعد اس کے بارے میں امیدیں پیدا ہوئیں۔ لیکن بعد میں ان ڈاکٹروں نے کہا کہ نتائج غیر یقینی رہے تھے۔