رسائی کے لنکس

کرونا وائرس کی پہلی باضابطہ دوا کی منظوری دے دی گئی


(FILES) In this file photo one vial of the drug Remdesivir is viewed during a press conference about the start of a study with the Ebola drug Remdesivir in particularly severely ill patients at the University Hospital Eppendorf (UKE) in Hamburg, northern
(FILES) In this file photo one vial of the drug Remdesivir is viewed during a press conference about the start of a study with the Ebola drug Remdesivir in particularly severely ill patients at the University Hospital Eppendorf (UKE) in Hamburg, northern

امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ( ایف ڈی اے) نے کرونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے 'ریم ڈس وائر' کو پہلی باضابطہ دوا کے طور پر منظور کر لیا ہے۔ ریمیڈس وائر ایک اینٹی وائرل دوا ہے، جو اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کو دی جائے گی۔

اس دوا کو ریاست کیلیفورنیا میں قائم گِلی ایڈ سائنسز نے ویکلری کا نام دیا گیا ہے۔ اس دوا سے مریض اوسطاً 15 کی بجائے 10 روز میں صحت یاب ہو جاتا ہے۔ اس دوا پر یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے گِلی ایڈ کے ساتھ مل کر تحقیق کی تھی۔

اِس سال موسم بہار سے ریم ڈس وئر کو صرف ہنگامی بنیادوں پر دیا جا رہا تھا۔ تاہم اب یہ پہلی ایسی دوا کے طور پر سامنے آئی ہے جسے کووڈ-19 کے علاج کے لیے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایدمنسٹریشن کی مکمل منظوری حاصل ہو گئی ہے۔

اس ماہ کے آغاز پر جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے، تب اُنہیں بھی یہی دوا دی گئی تھی۔

اس دوا کو اسپتال میں داخل کرونا وائرس سے متاثرہ مریض، جس کی عمر 12 سال سے زیادہ اور وزن کم از کم 40 کلو گرام یعنی 88 پاؤنڈ ہو، پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 12 سال سے کم عمر مریضوں کو بھی مخصوص حالات اور نگرانی میں یہ دوا دی جا سکے گی۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ دوا، وائرس کو اپنی نقل بنانے سے روکتی ہے یعنی اسے پھیلنے نہیں دیتی۔ اس دوا کو شروع کرنے سے پہلے مریض کے گردوں اور جگر کے چند ٹیسٹ کئے جائیں گے تا کہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ دوا انہیں نقصان تو نہیں پہنچائے گی، اور کسی ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس کی نگرانی کی جائے گی۔

اس کے لیبل پر لکھا ہوا ہے کہ اسے ملیریا کے لیے استعمال ہونے والی دوا ہائیڈروکسی کلوروکوئین کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے اس کا اثر کم ہو جائے گا۔

گِلی ایڈ کے چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر مرڈیڈ پارسے کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ اب ہمارے پاس کووڈ-19 کے خلاف جنگ میں خاصی معلومات آ چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے 50 کے قریب ملکوں سے منظوری مل چکی ہے یا عارضی استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔

اس دوا کی قیمت متنازع ہے اور وہ اس تناظر میں کہ تحقیقات میں ابھی تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس سے زندگی بہتر ہو جائے گی؟

گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کی جانے والی ایک بڑی تحقیق میں یہ علم ہوا کہ اس دوا نے کووڈ-19 سے متاثرہ اسپتال میں داخل مریضوں پر اثر نہیں کیا۔

ایف ڈی اے کی جانب سے اس کی منظوری دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ این آئی ایچ اور دیگر دو اداروں کی تحقیق میں اس دوا کو موثر پایا گیا ہے۔

گلی ایڈ نے اس دوا کے ایک کورس کی قیمت 2340 ڈالر رکھی ہے، مگر یہ ان کے لیے ہے جن کے پاس امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں حکومتی ہیلتھ پروگرام ہے۔ جب کہ پرائیویٹ انشورنس رکھنے والوں کے لیے اس کی قیمت 3120 ڈالر ہے۔ مریض اپنی جیب سے کتنی رقم ادا کرے گا؟ اس کا انحصار اس کی انشورنس، آمدن اور اور دیگر چیزوں پر ہے۔

ابھی تک صرف ڈیکسا میتھازون جیسے سٹیرائیڈز کے استعمال سے کووڈ-19 کے مریضوں کی ہلاکت کے خطرے میں کمی دیکھی گئی ہے۔

ایف ڈی اے نے اس بیماری سے شفایاب ہونے والوں کو اپنا خون دینے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ دیگر دو کمپنیاں بھی اینٹی باڈی ادویات کے استعمال کی اجازت لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG