پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق خواتین ووٹرز کے اندراج میں چھتیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اضافے میں یہ رجحان پاکستان کے کسی بھی دوسرے علاقے میں ریکارڈ شدہ اضافےسے زیادہ ہے۔
گزشتہ چار برسوں میں ملک بھر میں ووٹروں کی مجموعی تعداد میں تیرہ ملین یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ تک اضافہ ہوا ہے، جس میں تیئس فیصد اضافہ صرف فاٹا میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار، ولی الرحمان کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار نادرہ سے لئے گئے ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تصدیق کے بعد اسکا نئے الیکٹورل رول میں اندراج ہوا ہے۔
فاٹا میں خواتین ووٹرز کی تعداد میں اس اضافے کی تصدیق کرنے کے لئے الیکشن کمیشن نے موبائیل ٹیمیں تشکیل دی تھیں۔ تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ابھی بھی بہت سی خواتین شناختی کارڈز سے محروم ہیں جسکی وجہ سے وہ اپنا اندراج نہیں کروا سکیں۔
فاٹا میں خواتین ووٹرز کے اندراج کو ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے تاہم حقوق نسواں کے لئے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل امتحان الیکشن کے روز، فاٹا کی ان خواتین کا اپنے گھروں سے نکلنا اور ووٹ ڈالنا ہو گا۔ انکا کہنا ہے کہ اس ضمن میں خواتین کے لئے مخصوص پولنگ سٹیشنوں کی تشکیل، پولنگ سٹیشنوں تک انکی رسائی کو ممکن بنانا اور ووٹ ڈالنے کے لئے خواتین کی تربیت جیسے اقدامات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک کارکن، ناہید آفریدی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ خواتین ووٹرز کے لئے فاٹا میں بہت مسائل ہیں، خواتین کو ووٹ ڈالنے کے بارے میں کچھ نہیں پتا اسلئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے خواتین میں شعور پیدا کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے۔
فاٹا میں خواتین ووٹروں کے اندراج میں اس اضافے سے پتہ چلتا ہے کہ کسطرح ماضی میں یہ خواتین حق رائے دہی اور اپنے علاقوں کے نمائندوں کے انتخاب میں اظہار سے محروم رہیں۔ اور اس کا ازالہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن ووٹ ڈالنے کی ان خواہش مند خواتین کی رائے دہی کو یقینی بنائے۔