رسائی کے لنکس

لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا، کورٹ مارشل کی کارروائی شروع


لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے نومبر 2022 میں اس وقت قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی جب وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے نومبر 2022 میں اس وقت قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی جب وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا تھا۔
  • پاکستان کی فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
  • فیض حمید کو تحویل میں لے کر آرمی ایکٹ کے تحت انضباطی کارروائی شروع کر دی گئی ہے: آئی ایس پی آر
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ٹاپ سٹی کیس میں تفصیلی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی۔
  • ریٹائرمنٹ کے بعد لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے کئی واقعات بھی سامنے آئے: آئی ایس پی آر

پاکستان کی فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو تحویل میں لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پیر کو فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ٹاپ سٹی کیس میں تفصیلی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی۔

فوجی ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کے خلاف آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔

فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت انضباطی کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔

جنرل فیض حمید پر الزام ہے کہ اُنہوں نے اسلام آباد کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی پر قبضے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔

اسلام آباد کی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز نے نومبر 2023 میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مئی 2017 میں جنرل فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے دفتر اور اُن کی رہائش گاہ پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ریڈ کیا۔

کنور معیز نے الزام لگایا تھا کہ ریڈ کے دوران آئی ایس آئی اہلکار اُن کے گھر سے قیمتی اشیا اپنے ساتھ لے گئے تھے جس میں سونا، ہیرے اور نقدی شامل تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس معاملے کو سنجیدہ قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کو وزارتِ دفاع سے رُجوع کی ہدایت کی تھی۔

ان الزامات پر کبھی جنرل فیض حمید کی طرف سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

جنرل فیض حمید کے قریبی حلقوں کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک خاتون کی جانب سے اُن کی زمین پر قبضے کے معاملے پر متاثرہ خاتون کی مدد کی تھی۔

جنرل فیض حمید کے بھائی نجف حمید نے بھی ان الزامات کی تردید کی تھی۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے نومبر 2022 میں اس وقت قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی جب وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا تھا۔

کنور معیز کی پٹیشن میں مزید کیا تھا؟

کنور معیز کی پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جنرل فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے اس مسئلے کو بعد میں حل کرنے کے لیے ان سے رابطہ بھی کیا جب کہ جنرل فیض حمید نے بھی ان سے ملاقات کی۔

اُن کے بقول ملاقات میں جنرل فیض نے یہ یقین دہانی کرائی کہ ریڈ کے دوران قبضے میں لی گئی کچھ چیزیں واپس کر دی جائیں گی، تاہم 400 تولے سونا اور کیش واپس نہیں کیا جائے گا۔

یہ واقعہ اس وقت بعض محفلوں میں زیربحث آیا اور بعض اخبارات میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئیں ان میں کہا گیا کہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز ایم کیو ایم کے ساتھ منسلک ہیں اور رینجرز کا چھاپہ منی لانڈرنگ سے متعلق تھا۔ لیکن یہ کیس دب گیا اور زیادہ سامنے نہ آ سکا۔

اس سے قبل اس معاملے میں زاہدہ جاوید نامی خاتون کا معاملہ بھی سامنے آیا جن کے مطابق یہ سوسائٹی ان کے بھائی کی تھی جو برطانیہ میں وفات پا چکے ہیں۔ اس معاملے سے متعلق سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر کنور معیز پر دباؤ ڈالنے اور ان چیمبر سماعت کرنے کا بھی الزام تھا۔

نومبر 2023 میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ معاملہ کھلی عدالت میں سنا اور جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ان چیمبر سماعت کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس ریٹائرڈ آرمی آفیسر کے خلاف وزارتِ دفاع میں جانے کا آپشن موجود ہے۔

رواں سال جنوری میں کنور معیز نے وزارت دفاع سے رجوع کیا جس پر کارروائی کرتے ہوئے میجر جنرل کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG