رسائی کے لنکس

مسلمانوں کو نسل کشی کی دھمکیاں، بھارتی فورسز کے پانچ سابق اعلیٰ افسران کا مودی کو کھلا خط


ہری دوار میں منعقد کیے جانے والے مذہبی اجتماع سے متعلق سابق فوجی افسران نے کہا ہے کہ اجتماع میں ہندو ریاست کے قیام کی بار بار اپیل کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ بوقت ضرورت ہتھیار اٹھائے جائیں اور ہندو ازم کے تحفظ کی خاطر بھارتی مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔ (فائل فوٹو)
ہری دوار میں منعقد کیے جانے والے مذہبی اجتماع سے متعلق سابق فوجی افسران نے کہا ہے کہ اجتماع میں ہندو ریاست کے قیام کی بار بار اپیل کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ بوقت ضرورت ہتھیار اٹھائے جائیں اور ہندو ازم کے تحفظ کی خاطر بھارتی مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔ (فائل فوٹو)

بھارت کی مسلح افواج کے پانچ سابق سربراہان سمیت 200 سرکردہ شخصیات نے صدر رام ناتھ کووند اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے اور ریاست اتراکھنڈ کے ہری دوار میں ہونے والے ہندوؤں کے اجتماع میں مبینہ اشتعال انگیزی پر تشویش ظاہر کی ہے۔

یہ اجتماع 17 سے 19 دسمبر کے درمیان منعقد ہوا تھا اور اس میں مبینہ طور پر ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ مذکورہ شخصیات نے اپنے خط میں مبینہ اشتعال انگیزی کے دیگر واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

مذکورہ خط پر سابق چیف آف اسٹاف ایڈمرل لکشمی نرائن رام داس، سابق ایڈمرل وشنو بھاگوت، سابق ایڈمرل ارون پرکاش، سابق ایڈمرل آر کے دھوون، سابق ایئر چیف مارشل ایس پی تیارگی اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ وجے اوبرائے نے دستخط کیے ہیں۔

یہ خط صدر اور وزیرِ اعظم کے علاوہ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا، نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو، لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا اور تمام سیاسی جماعتوں کو ارسال کیا گیا ہے۔

دستخط کنندگان نے ہری دوار میں منعقدہ مذہبی اجتماع پر، جس میں اقلیتوں کو ہدف بنایا گیا تھا، توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے خط میں کہا کہ بھارت کی مسلح افواج، آرمی، بحریہ، فضائیہ، مرکزی مسلح فورسز (سی اے پی ایف) اور پولیس ملک کی سلامتی (داخلہ اور خارجہ) کی ذمہ دار ہیں اور ان تمام نے بھارت کے آئین اور سیکولر اقدار کا حلف لیا ہے۔

خط کے مطابق یہ لوگ 17 سے 19 دسمبر تک ہندو سادھوؤں اور دوسرے رہنماؤں کی جانب سے ہری دوار میں منعقد کیے جانے والے مذہبی اجتماع سے، جس کو دھرم سنسد کہا گیا، بہت پریشان ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اجتماع میں ہندو ریاست کے قیام کی بار بار اپیل کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ بوقت ضرورت ہتھیار اٹھائے جائیں اور ہندو ازم کے تحفظ کی خاطر بھارتی مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔

ان کے مطابق تقریباً اسی موقع پر دہلی میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھا ہوئے اور کھلے عام بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا حلف اٹھایا گیا اور ضرورت پڑنے پر لڑنے اور مرنے مارنے کا عہد کیا گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ایسے ہی اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں۔

سابق فوجی حکام اور سول سوسائٹی کے ارکان نے حکومت اور عدلیہ سے اپیل کی ہے کہ ملکی مفاد میں اس معاملے پر فوری کارروائی کی جائے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایسی اشتعال انگیزی، تشدد اور نفرت انگیز تقریروں کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ داخلی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہوگا بلکہ سماجی تانا بانا بھی بکھر جائے گا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ مقررین میں سے ایک نے فوج اور پولیس سے ہتھیار اٹھانے اور اس ’صفائی مہم‘ میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔

خط کے مطابق فوج سے اپنے شہریوں کی نسل کشی کے لیے کہنا قابل مذمت اور ناقابلِ قبول ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اندرون ملک امن و امان اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچنے سے، بالخصوص بھارت کی سرحدوں کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر بیرونی دشمن طاقتوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے تکثیری معاشرے میں کسی کے خلاف تشدد کی کھلی اپیل سے فوج کا باہمی اتحاد بری طرح متاثر ہو گا۔ لہٰذا وہ حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے تحفظ کی خاطر اس معاملے میں فوری طور پر کارروائی کی جائے۔

کشمیر: برف کے گولے اور پٹاخے پھینک کر منایا جانے والا انوکھا عرس
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:16 0:00

یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے 76 وکلا نے، جن میں پٹنہ ہائی کورٹ کی ایک سابق چیف جسٹس بھی شامل تھے، چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کے نام ایک خط میں اس معاملے پر از خود کارروائی اور آئین کے تحت ایکشن لینے کی اپیل کی تھی۔

ہری دوار کے بعد ریاست چھتیس گڑھ کے رائے پور میں بھی اسی قسم کے ایک مذہبی اجتماع کا انعقاد کیا گیا اور مہاتما گاندھی اور اقلیتوں کے خلاف توہین آمیز تقریریں کی گئیں۔

مہاتما گاندھی کی توہین کرنے پر رائے پور کی پولیس نے ایک ہندو مذہبی رہنما کالی چرن مہاراج کو مدھیہ پردیش سے گرفتار کیا ہے۔

انھیں رائے پور کی ایک عدالت نے 31 دسمبر کو دو روز کے لیے پولیس ریمانڈ میں بھیج دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG