برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے یورپین کمیشن کی صدر ارسلا وون ڈر لییان نے کہا کہ ’’امریکی کیپیٹل میں یہ تقریب امریکی جمہوریت کی لچک کا ثبوت ہے اور اس بات کا بھی ثبوت کہ ایک بار پھر چار بھرپور برسوں کے لیے یورپ کا وائٹ ہاؤس میں ایک دوست ہو گا۔‘‘
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور حزب اختلاف کے رہنما کئیر سٹارمر نے صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
انہوں نے برطانوی ایوان نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے مستقبل کی جانب نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ کہ وہ ’’دونوں ممالک کے درمیان شراکت کو مضبوط کرنے اور مشترکہ مفادات پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
جانسن نے موسمیاتی تبدیلی، عالمی وبا اور بین البحر اوقیانوس سلامتی کے معاملات کو دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات میں بیان کیا۔
یوپین کونسل کے صدر چارلز مائیکل بھی اس موقع پر پرجوش تھے، مگر انہوں نے ٹرمپ دور کے دوران امریکہ اور یورپین یونین کے تعلقات کی تبدیلی پر بھی بلا تکلف تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ اقتدار کی منتقلی سے زیادہ ہے، آج ہمیں یہ موقع مل رہا ہے کہ ہم اپنی بین البحر اوقیانوس تعلقات کی تجدید کریں جسے پچھلے چار برسوں میں کافی مسائل کا سامنا رہا ہے۔‘‘
انہوں نے بائیڈن کو کونسل کی میٹنگ میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ انہوں نے کہا کہ یورپی رہنما امریکہ کے ساتھ مل کر کثیر الجہتی تعاون، عالمی وبا کے خاتمے، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ اور امن اور سلامتی کے معاملات پر کام کرنا چاہتے ہیں۔
برطانیہ کے حزب اختلاف کے رہنما کئیر سٹارمر نے صدر بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کا خیرمقدم کیا اور ان کی تقریب حلف برداری کو امید کی فتح اور امریکہ اور دنیا بھر کے لیے خوش امیدی کا حقیقی لمحہ قرار دیا۔