رسائی کے لنکس

حماس اور فتح سمیت فلسطینی حریف سیاسی گروہوں کے مصر میں مذاکرات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حماس اور فتح سمیت فلسطین کے دیگر سیاسی گروہوں نے اس سال کے انتخابات سے قبل طویل عرصے سے چلے آ رہے اختلافات کا حل تلاش کرنے کے لیے پیر کو مصر میں مذاکرات کئے۔

مصر گزشتہ 14 سال سے صدر محمود عباس کے قوم پرست گروپ فتح اور اس کے حریف مسلح گروپ حماس کے مابین صلح کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس اسرائیل سے کسی بھی قسم کی بات چیت کی مخالف تحریک ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ 15 برس میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں کوئی بھی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پیر کو قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں تقریباً ایک درجن سیاسی گروہوں نے شرکت کی۔ ان گروپوں میں اسلامی جہاد نامی جنگجو گروہ بھی شامل ہے۔

اسلامی جہاد نے 1996 اور 2006 میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا اور فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گروہ اس سال انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

لیکن تمام حریف سیاسی گروپوں کے درمیان الیکشن اسٹیشنوں کی حفاظت اور انتخابی عمل میں تنازعات کے حل کے طریقہ کار جیسے کئی انتخابی معاملات پر شدید عدم اعتماد ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس سال الیکشن کے انعقاد کے متعلق بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سال انتخابات ہو سکیں گے۔

رائٹرز کے مطابق، انتخابات کے حوالے سے وسیع پیمانے پر شکوک پائےجاتے ہیں۔ بہت سے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ یہ انتخابات محمود عباس کی جانب سے امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کو یہ ظاہر کرنے کی محض ایک کوشش ہے کہ وہ جمہوری سوچ رکھتے ہیںَ، تا کہ ان کے ساتھ تعلقات بحال کئے جائیں، جو کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں نچلی ترین سطح پر چلے گئے تھے۔

اس وقت غزہ اور مغربی کنارے میں 28 لاکھ اہل ووٹر ہیں، اور ان میں سے 80 فیصد نے سینٹرل الیکشن کمیشن میں بطور ووٹر اپنا اندراج کروایا ہے۔ فلسطینی 18 سال کی عمر کے بعد ووٹ دینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG