رسائی کے لنکس

اقتصادی سروے؛ آئندہ مالی سال پاکستان میں معاشی بہتری کے دعوے


پاکستان کی حکومت نے قومی اقتصادی سروے 2023-2022 جاری کر دیا ہے جس کے سامنے آنے والے خدوخال کے مطابق مالی سال میں مجموعی ترقی یعنی جی ڈی پی پانچ فی صد کے ہدف کے مقابلے میں صرف 0.29 فی صد رہی ہے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے وزیرِ مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا سمیت دیگر حکام کے ہمراہ اقتصادی سروے پیش کیا۔

گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے سامنے آئندہ مالی سال کے اہداف کے ساتھ میکرو اکنامک کارکردگی کا وسیع جائزہ رکھا گیا تھا جس کے مطابق حکومت 3.5 فی صد کی شرح نمو کے ہدف کے ساتھ آئندہ برس اقتصادی منظر نامے کو مثبت قرار دے رہی ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی برآمدات 25.4 ارب ڈالرز جب کہ درآمدات 51.2 ارب ڈالرز رہیں۔

وفاقی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ بہت جلد روپے کی قدر میں بہتری آئے گی کیوں کہ مصنوعی وجوہات کی بنا پر اس کی قدر کم ہوئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بھی یہ اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ روپے کو ڈالرز میں تبدیل کرانے کا رجحان ٹھیک نہیں ہے۔

اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ 2017 میں پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہت بہتر تھی اور ملک کو دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے گروپ جی ٹوئنٹی میں شامل کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔

اقتصادی سروے میں کیا ہے؟

رواں مالی سال معیشت کے تینوں بڑے شعبوں (زراعت، صنعت اور سروسز) میں وسیع پیمانے پر ناکامی دیکھی گئی کیوں کہ جی ڈی پی میں پانچ فی صد کے ہدف کے برعکس صرف0.29 فی صد اضافہ ہوا۔

اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 1.55 فی صد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 4.27 فی صد تھی۔

صنعی شعبے میں ترقی کی شرح منفی 2.94 فی صد رہی جب کہ خدمات کے شعبے میں ترقی کی شرح 0.86 فی صد رہی۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر ہی بجٹ پیش کرنا پڑ رہا ہے جب کہ ملک کو بدترین معاشی بحران کا بھی سامنا ہے۔

حکومت کو امید ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی میں کمی کے پیشِ نظر آئندہ برس ملکی سطح پر مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہو گی تاہم یہ دوہرے ہندسے میں ہی رہے گی۔

ٹیکس محصولات میں اضافہ

اقتصادی سروے کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال میں جولائی سے مئی تک چھ ہزار 210 ارب روپے جمع کیے۔ یہ شرح اس سے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 16 فی صد زیادہ ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال کے دوران سات ہزار چار 470 ارب روپے جمع کرنا کا ہدف رکھا تھا۔

حکومت کی جانب سے آئندہ سال کے بجٹ میں مہنگائی کی شرح 21 فی صد رکھی جا رہی ہے جو کہ اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ بجٹ کے تخمینوں کے مطابق رواں سال مئی میں مہنگائی کی شرح 38 فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد حکام کو آئندہ ماہ مہنگائی کم ہونے کی توقع ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے سپلائی میں رکاوٹ نے صنعت اور سروسز کے شعبوں کو بری طرح متاثر کیا اور اس کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے ٹریک جیسے اہم ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا۔

صنعتی شعبے کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ درآمدی پابندیوں نے ضروری خام مال اور مشینری کو درآمد کرنا مشکل بنا دیا تھا۔

دستاویز کے مطابق لارج اسکیل مینوفیکچرنگ رواں برس آٹھ فی صد سکڑ گئی جب کہ گزشتہ سال یہ 10.6 فی صد تھی۔ انویسٹمنٹ-ٹو-جی ڈی پی ریشو 22-2021 میں 15.7 فی صد سے کم ہو کر 23-2022 میں 13.6 فی صد پر آ گئی۔

رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ (جولائی تا مارچ) میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 3.6 فی صد رہا جو ایک سال پہلے 3.9 فی صد تھا، کل آمدنی میں 18.1 فی صد اضافہ ہوا لیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 7.2 فی صد سے کم ہو کر 6.6 فی صد رہ گیا۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ترقی کا انحصار سیاسی استحکام، بیرونی اکاؤنٹس اور عالمی سطح پر تیل اور اجناس کی قیمتوں میں ممکنہ گراوٹ کے درمیان میکرو اکنامک استحکام پر ہے۔

حکام تسلیم کرتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور عالمی سطح پر شرح نمو میں اضافے کے تاریک امکانات نے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی۔

اقتصادی سروے ایک سالانہ دستاویز ہے جو کہ حکومت ہر سال بجٹ سے ایک روز پہلے پیش کرتی ہے۔ اقتصادی سروے میں ملک کی معاشی صورتِ حال کا احاطہ کرتے ہوئے اس کے خدوخال پیش کیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے اقتصادی سروے وسیع پیمانے پر ملکی معیشت کی حالت مالیاتی پیش رفت اور مانیٹری مینجمنٹ اور بیرونی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔

اقتصادی سروے میں گزشتہ سال کی معیشت کی حالت کا جائزہ لیا جاتا ہے جب کہ اس میں مستقبل کے اہم امکانات کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔

یہ نہ صرف مطلوبہ کلیدی پالیسی فیصلوں کی بنیاد رکھتا ہے بلکہ معیشت کے مختلف شعبوں کے تفصیلی شماریاتی ڈیٹا کے ذریعے پچھلے فیصلوں کے اثرات کا بھی جائزہ لیتا ہے۔

XS
SM
MD
LG