رسائی کے لنکس

راہل گاندھی کا دورۂ امریکہ؛ 'کانگریس رہنما نے بی جے پی کی کمزوری پکڑ لی ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق صدر راہل گاندھی نے امریکہ کے تین شہروں سان فرانسسکو، واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک سٹی کا اپنا چھ روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے۔ وزیرِ اعظم مودی کے رواں ماہ دورے سے قبل راہل گاندھی کی امریکہ یاترا کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

راہل گاندھی کا یہ دورہ ان کی تقریباً ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی پیدل یاترا اور کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی جیت کے بعد ہوا ہے اس لیے اسے ملک و بیرون ملک میں دلچسپی سے دیکھا گیا۔

وزیر اعظم مودی 22 جون کو امریکہ کے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں۔

راہل گاندھی نے امریکہ میں بھارتی تارکینِ وطن اور کانگریس حامیوں سے خطاب کیا اور بالخصوص بھارت کے اندرونی امور جیسے کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی صورت حال، مہنگائی، بے روزگاری اور اقلیتوں پر اظہار ِخیال کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مودی حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور وزیر اعظم مودی پر طنز بھی کیا۔

انہوں نے اس دورے میں بھی بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر عوام کو تقسیم کرنے اور مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کا الزام عائد کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ 'نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنا چاہتے ہیں۔'

نئی دہلی میں ان کے دورے کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ دورہ کامیاب تھا یا ناکام؟ کیا اس نے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا اور کیا یہ دورہ بی جے پی کے اندرونی حلقوں میں تشویش کی نظروں سے دیکھا گیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق راہل گاندھی کا یہ دورہ در اصل غیر ممالک میں بسے بھارتی تارکینِ وطن کے درمیان نریندر مودی کی بڑھتی مقبولیت کا مقابلہ کرنے یا جواب دینے کی کانگریس کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد غیر ممالک میں راہل گاندھی کا امیج بہتر بنانا بھی ہے۔

'بھارت میں راہل گاندھی کی مقبولیت بتدریج بڑھ رہی ہے'

نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک‘آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ (او آر ایف) میں وزیٹنگ فیلو اور کانگریس پارٹی پر ایک کتاب کے مصنف رشید قدوائی کہتے ہیں کہ اندرون ملک بھی راہل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

اُن کے بقول سروے رپورٹس سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ راہل گاندھی کو اس دورے کے ذریعے اپنا امیج بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔

واضح رہے کہ سروے ایجنسی سی ووٹر نے ’موڈ آف دی نیشن‘ نامی ایک سروے کیا ہے جس میں نریند رمودی کی مقبولیت 47 فی صد اور راہل گاندھی کی 27 فی صد دکھائی گئی ہے۔

بھارت جوڑو یاترا سے قبل راہل کی مقبولیت دس فی صد سے بھی کم رہی ہے اور مودی کی مقبولیت موجودہ شرح سے زیادہ رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رشید قدوائی کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی اس بات سے واقف ہیں کہ حکومت کے وزرا بھارت کی اندرونی صورت حال کے بارے میں مغربی میڈیا کی رپورٹس اور بالخصوص امریکی و برطانوی اخباروں کے اداریوں کو خواہ مسترد ہی کیوں نہ کریں لیکن ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مغربی میڈیا میں وزیر اعظم کا بہتر امیج پیش کیا جائے۔

بقول ان کے راہل گاندھی نے بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی کمزوری پکڑ لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے غیر ملکی سرزمین پر نریندر مودی اور بی جے پی پر شدید تنقید شروع کر دی۔

بھارتی تارکینِ وطن کی ملکی سیاست میں اہمیت

دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاست میں انڈین ڈائسپورا (بھارتی تارکین وطن) کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر چہ انتخاب اندرون ملک جیتنا ہوتا ہے اور تارکین وطن ووٹ بھی نہیں دیتے لیکن وہ رائے سازی میں کسی حد تک اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

او آر ایف سے وابستہ ایک اور سینئر تجزیہ کار منوج جوشی کے مطابق تارکینِ وطن سیاسی جماعتوں کا مالی تعاون کرتے ہیں، وہ اثر انداز بھی ہوتے ہیں اور وہ غیر ملکی اداروں کے بعض اہم منصبوں پر فائز بھی ہیں۔ ان کے بقول وہ انتخابات میں حصہ تو نہیں لیتے لیکن کسی بھی سیاست دان کے امیج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ میں بسے بھارتی تارکین وطن دیگر تارکینِ وطن کے مقابلے میں اقتصادی طور پر زیادہ کامیاب ہیں۔ بھارت کی معیشت کے فروغ میں ان کا قابلِ ذکر تعاون بھی ہے۔

جب راہل گاندھی نے رواں سال کے مارچ میں برطانیہ کے دورے میں حکومت پر جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کا الزام عائد کیا تھا تو اندرون ملک ایک تنازع پیدا ہوا تھا اور حکومت اور بی جے پی کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جانے لگا تھا کہ وہ غیر ملکی سرزمین پر بھارت کو بدنام کر رہے ہیں۔


اسی طرح جب انہوں نے امریکہ میں یہی بات کہی تو ایک بار پھر ان پر بھارت کو بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا۔

حکومت کے وزرا، بی جے پی کے رہنما اور حکومت کے حامی کہے جانے والے میڈیا اداروں نے راہل کے بیان کی مذمت کی۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے الزام عائد کیا کہ راہل گاندھی نے ’نفرت کا شاپنگ مال‘ کھول دیا ہے۔

رشید قدوائی کہتے ہیں کہ راہل کے بیان کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور ان پر بھارت کو بدنام کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت پر کی جانے والی ان کی تنقید کو عالمی میڈیا میں کوریج ملی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انڈین ڈائسپورا کی رائے بٹ گئی جو وزیر اعظم کے لیے پریشان کن بات ہے۔

'اپوزیشن رہنما ہی حکومت کی مخالف کرتا ہے'

سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ راہل گاندھی اپوزیشن رہنما ہیں اور اپوزیشن حکومت کی مخالفت کرتی ہی ہے۔ اگر راہل گاندھی کر رہے ہیں تو کیا غلط ہے۔

ان کے بقول جب راہل حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو بی جے پی ان کی مذمت کرتی ہے لیکن جب وزیر اعظم غیر ملکی سرزمین پر سابقہ کانگریس حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو وہ چپ رہتی ہے۔

کانگریس کے نوجوان رہنما کنھیا کمار نے ایک ٹی وی شو میں حصہ لیتے ہوئے راہل گاندھی کے بیان کا دفاع کیا اور کہا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اطلاعات کے حوالے سے ملکی سرحدیں ختم ہو گئی ہیں۔ جو بات اندورن ملک کہی جا سکتی ہے وہی بیرون ملک بھی کہی جا سکتی ہے۔

خیال رہے کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے گزشتہ ہفتے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر آئندہ پانچ برس کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا گیا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے ساتھ دفاع کے شعبے میں تعاون شامل ہے۔

اُنہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

قابل ذکر ہے کہ راہل گاندھی نے اپنے دورے میں بھارت میں جمہوری اداروں اور پریس کی کم ہوتی آزادی کی بات کہی تھی اور الزام لگایا تھا کہ بقول ان کے بی جے پی اور آر ایس ایس نے جمہوری اداروں پر قبضہ کر لیا ہے۔

اسی دوران وائٹ ہاؤس نے بھارتی جمہوریت کو سراہا اور کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کے دورے میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کے بارے میں بھی تبادلہ خیال ہوگا۔

نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اہلکار جان کربی نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ گہری شراکت داری اور تعلقات کو مزید مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔


رشید قدوائی کے مطابق کانگریس بھی امریکہ سے باہمی رشتوں کو بہت اہمیت دیتی ہے۔

سابقہ کانگریس حکومت میں بھی دونوں ملکوں میں بہت مضبوط تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان حکومتی سطح پر تعلقات ہیں۔ دونوں میں مشترک جمہوری قدریں ہیں۔

اس لیے خارجہ پالیسی کے تعلق سے موجودہ حکومت اور کانگریس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ راہل بھی امریکہ سے مستحکم تعلقات کے حامی ہیں۔

ان کے مطابق جب راہل گاندھی بھارت میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو وہ بھی اس کے استحکام کی حمایت کرتے ہیں اور چوں کہ امریکہ میں جمہوری قدریں بہت مضبوط ہیں لہٰذا ان کی باتوں کو سراہا جاتا ہے۔

مبصرین کے مطابق کانگریس پارٹی اور مودی حکومت کی خارجہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امریکی دورے کے دوران جب یوکرین روس جنگ کے بارے میں راہل سے سوال کیا گیا تو انہوں نے مودی حکومت کے مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ کانگریس کی حکومت ہوتی تو وہ بھی یہی مؤقف اختیار کرتی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG