رسائی کے لنکس

طالبان کنٹرول کے بعد افغانستان میں100 سے زیادہ ریڈیو اسٹیشن بند ہو گئے


کابل میں خواتین کے پروگرام ریڈیو بیگم کی ریکارڈنگ کا ایک منظر ۔ فائل فوٹو
کابل میں خواتین کے پروگرام ریڈیو بیگم کی ریکارڈنگ کا ایک منظر ۔ فائل فوٹو

2021 میں افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات اور میڈیا پر پابندیوں کے نتیجے میں وہاں تقریباً 34 فیصد ریڈیو سٹیشن بند ہو گئے ہیں ، جس سے سینکڑوں مرد وں اور خواتین کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

افغان انڈیپنڈنٹ جرنلسٹس یونین (اے آئی جے یو) نے ، جو کابل میں مقامی میڈیا پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے، یہ اعداد و شمار پیر کو ریڈیو کے عالمی دن کے موقع پر جاری کیے ہیں۔

اے آئی جے یو کے صدر حجت اللہ مجددی نے وی او اے کو بتایا کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے سے قبل ملک میں 345 ریڈیو چینلز کام کر رہے تھے، جن میں تقریباً 5,000 افراد کام کرتے تھے، جن میں سے 25 فیصد خواتین تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان کے قبضے کے بعد 117 اسٹیشنوں نے معاشی مسائل کی وجہ سے اپنی نشریات بند کر دی ہیں۔

مجددی نےمزید کہا کہ 1,900 افراد، جن میں سے نصف سے زیادہ خواتین ہیں، اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔

باقی 228 اسٹیشنوں پر 1,800 سے زائد کارکن کام کرتے ہیں، جن میں خواتین کی تعداد محض چند درجن ہے ۔

جلال آباد کے ایک ریڈیو اسٹیشن میں پروگروم ہمیشہ بہار کی ریکارنگ کا ایک منظر۔ 11 دسمبر 2022
جلال آباد کے ایک ریڈیو اسٹیشن میں پروگروم ہمیشہ بہار کی ریکارنگ کا ایک منظر۔ 11 دسمبر 2022

طالبان رہنماؤں پر بین الاقوامی پابندیوں اور مالی امداد کی معطلی نے ایک ایسے ملک کو جس کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہے، معاشی مشکلات کو مزید گہرا کر دیا ہے، جس سے افغان میڈیا انڈسٹری کو درپیش چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ طالبان حکام کی جانب سے بڑھتی ہوئی سینسر شپ اور صحافیوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی نے افغان آزاد صحافت کو بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے گزشتہ نومبر میں رپورٹ کیا تھا کہ طالبان کے ملک پر دوبارہ قبضے کے بعد سے 200 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتاریوں، ناروا سلوک اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے بعد سینکڑوں افغان صحافی خوف سے پڑوسی ملک پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب فرار ہو چکے ہیں۔

عالمی میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ 2021 میں طالبان کے قبضے کے پہلے تین مہینوں کے اندر، 43 فیصد افغان میڈیا ہاؤسز بند کر دیے گئے تھے، اور 84 فیصد خواتین صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو گئی تھیں۔

قندوز میں ایک ریڈیو اسٹیشن سے انسانی حقوق کی سرگرم خاتون زرغونہ حسن کا پروگرام نشر کیا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو
قندوز میں ایک ریڈیو اسٹیشن سے انسانی حقوق کی سرگرم خاتون زرغونہ حسن کا پروگرام نشر کیا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو

طالبان حکام بدسلوکی کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور میڈیا کی بندش کا ذمہ دار فنڈنگ کی کمی کو قرار دیتے ہیں ۔

طالبان نے حال ہی میں وائس آف امریکہ کی پشتو اور دری سائٹس اور وائس آف امریکہ سے منسلک نیٹ ورک ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے ذریعے چلائے جانے والے آزادی ریڈیو کی ویب سائٹس تک رسائی کو بھی روک دیا ہے۔

طالبان حکام نے ابھی تک ان سائٹس کو روکے جانے کے الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا ۔

اتوار کے روز، طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا کہ غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹس کو جو "صرف منفی خبریں شائع کرتے ہیں" اور "[طالبان] کی کامیابیوں کی عکاسی نہیں کرتے" کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی۔

اسلام پسند حکمران بھی افغان خواتین پر اپنی زبردست پابندیوں کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں، جنہیں تعلیم حاصل کرنے اور ملک کے بیشتر کام کی جگہوں پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے تحفظات، خاص طور پر افغان خواتین کے ساتھ سلوک کے پیش نظر ، کسی بھی غیر ملکی حکومت نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

(ایاز گل۔ وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG