رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر : 'حبا کو پیلٹ گن کا چھرّا لگنے سے پورا خاندان متاثر ہوا'


حبا کو ڈیڑھ سال کی عمر میں پیلٹ گن کا ایک چھرّاا دائیں آنکھ پر لگا تھا جس سے اُن کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔
حبا کو ڈیڑھ سال کی عمر میں پیلٹ گن کا ایک چھرّاا دائیں آنکھ پر لگا تھا جس سے اُن کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع شوپیاں کی رہائشی حبا جان صرف ڈیڑھ برس کی تھیں جب ایک احتجاجی مظاہرے میں پولیس کی کارروائی کے دوران پیلٹ گن کا ایک چھرّااس کی دائیں آنکھ میں جا لگا۔ حبا اس وقت اپنے گھر کی راہداری میں والدہ کی گود میں تھیں۔

یہ واقعہ 25 نومبر 2018 کو پیش آیا جب شوپیاں میں سیکیورٹی فورسز اور مشتبہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کے بعد مقامی افراد نے احتجاجی ریلی نکالی اور مبینہ طور پر پولیس پر پتھراؤ کیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے پیلٹ گن کا استعمال کیا جس کی زد میں کم سن حبا بھی آ گئی اور اس کی دائیں آنکھ ضائع ہو گئی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال 2010 میں شروع کیا گیا تھا اس کے بعد سے لے کر اب تک مختلف مواقع پر اس کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کشمیر میں سرگرم جماعتیں بھی اس کے استعمال کی بھرپور مذمت کرتی رہی ہیں۔

البتہ بھارتی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وادی میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔ کیوں کہ آتشیں اسلحے کی نسبت یہ ایک غیر مہلک ہتھیار ہے۔

لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ پیلٹ گن کے چھرّے آنکھ میں لگنے سے کئی افراد کی بینائی ضائع ہوئی ہے جب کہ اس سے جسم کے دیگر اعضا بھی متاثر ہوتے رہے ہیں۔

ایک بار پھر بھارت کےسرکردہ ماہرین چشم نے حکومت سے پیلٹ گن یا چھرے والی بندوق کا استعمال ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

آنکھوں کے امراض سے متعلق ایک جریدے 'دی انڈین جرنل آف آپتھمالوجی' میں چھپی ایک رپورٹ میں ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پیلٹ گن کا استعمال ترک کر دیا جائے کیوں کہ اس سے بھارتی کشمیر میں سینکڑوں افراد کی بینائی جا چکی ہے۔

بھارتی کشمیر کے ماہرِ امراضِ چشم ڈاکٹر بشیر احمد نے بھی اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پیلٹ گن کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے کیوں کہ اس سے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی کشمیر کے ماہرینِ چشم نے 2016 میں سرینگر بائی پاس روڈ پر پیلٹ گنز کے استعمال کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ یہ گن بہت مہلک ہے اور اس سے بہت سارے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

بھارتی کشمیر میں 2016 میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران کشمیری ڈاکٹرز نے علامتی طور پر آنکھوں میں پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔
بھارتی کشمیر میں 2016 میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران کشمیری ڈاکٹرز نے علامتی طور پر آنکھوں میں پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین کے خلاف چھرے والی بندوقوں کے استعمال کے نتیجے میں سینکڑوں افرادمکمل یا جزوی طور پر بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔

اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2016 میں عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد کئی ماہ تک جاری رہنے والی شورش کے دوراں مظاہرین پر کی گئی پیلٹ گن فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والے بیشتر افراد کی بینائی علاج و معالجے کے باوجود واپس نہیں آ سکی ہے۔

یہ سروے اُن 777 افراد پر کیا گیا ہے جن کی ایک آنکھ یا دونوں آنکھیں جولائی اور نومبر 2016 کے درمیان پیش آنے والے پیلٹ فائرنگ کے واقعات میں زخمی ہوئی تھیں۔ اس سروے پر مبنی رپورٹ کے مطابق علاج کے باوجود 80 فی صد سے زیادہ متاثرین ایک آنکھ یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔


علاج کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہونے سے مریض نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا

سروے میں کہا گیا ہے کہ طویل اور مہنگے علاج کے بعد 82.4 فی صد متاثرین کی صرف اتنی بینائی واپس آئی ہے کہ وہ اپنی انگلیوں کو ہی گن سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مریضوں کی بینائی بحال نہ ہونے سے انفرادی طور پر اور اجتماعی سطح پر لوگوں میں ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔

سروے میں جن 777 افراد کا جائزہ لیا گیا ہے، ان میں سے اکثر نوجوان ہیں جن کی آنکھیں پیلٹ گن کے چھروں سے متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں سے کئی کی سرجری کی گئی جس کے باوجود خاطر خواہ نتائج نہیں ملے۔

ڈاکٹر بشیر کہتے ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود مریضوں کی بینائی بحال نہیں ہو سکی۔

اُن کے بقول "ہم نے کئی مریضوں کو دیکھا ہے۔پیلٹ فائرنگ میں اُن کی آنکھیں مکمل طور پر چھیدی گئی تھیں۔ کئی لوگ دونوں آنکھوں سے محروم ہوگئے ہیں۔"

'حبا کو پیلٹ گن کا چھرا لگنے سے پورا خاندان متاثر ہوا'

حبا جان کی والدہ مارسالہ جان نے وائس آف امریکہ کو بتایا "جب سے اسے چھرّا لگا ہے۔ ہم پر بہت مشکل وقت ہے، بہت سے ڈاکٹرز کو دکھایا، کشمیر سے باہر بھی لے گئے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ حبا کی بینائی واپس آ سکے، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی زمین ہی کیوں نہ فروخت کرنی پڑے۔"

مارسالہ جان نے مزید بتایا " ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حبا کی بینائی واپس نہیں آئے گی۔ اسےمزید مت ستاؤ۔ بار بار کی سرجری سے اس کی آنکھ کی شکل ہی خراب ہو گی جو ایک لڑکی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔"

حبا کے کیس پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ چھرّا حبا کی آنکھ میں چلا گیا تھا۔ اس کی پوری آنکھ خراب ہو چکی ہے۔ لہذٰا اُمید نہیں ہے کہ اس کی بینائی واپس آئے گی۔

حبا کی والدہ نے کہا کہ وہ اب ٹھیک طرح سے کھاتی پیتی بھی نہیں ہے اور اس کی طبیعت میں ضدی پن آگیا ہے۔

اُن کے بقول ڈاکٹرز نے ہدایت کر رکھی ہے کہ حبا کی آنکھوں میں آنسو آنا اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہذٰا ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ہر ضد پوری کریں تاکہ یہ نہ روئے۔

حبا کی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ اب تک حبا کے علاج پر پانچ لاکھ خرچ آ چکا ہے۔ حکومت نے کوئی مدد نہیں کی۔ صرف ضلع ڈپٹی کمشنر نے اس کے نام پر بینک میں ایک لاکھ روپیہ جمع کرایا تھاجو اسے تب ملے گا جب یہ 18 سال کی ہوجائے گی۔"

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پیلٹ گن کا استعمال امن و امان بحال کرنے کی کوششوں کے دوراں انتہائی مجبوری کی حالت میں کیا گیا ۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پانچ اگست 2019 کے بعد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پُرتشدد مظاہروں اور سیکیورٹی فورسز پر پتھر برسانے کا سلسلہ رک گیا اس لیے پیلٹ گن استعمال کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG