رسائی کے لنکس

'جاگتی آنکھوں سے خواب تم دیکھا کرو'


تحریر کے عنوان سے اگر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بات کچھ شاعری اور افسانے کی ہونے جا رہی ہے، یا ان انتہائی پریشان کن اور بے کیف دنوں میں زبردستی کوئی رومانی پہلو تلاش کیا جا رہا ہے، تو ایسا بالکل نہیں ہے۔

تلاش ہے خوشی کے اس احساس کی، جسے کرونا کی اس وبا نے اکثر دلوں سے دور کر دیا ہے۔ وہ ایک مسکراہٹ جو دل کی خوشی سے چہرے پر پھیل جاتی ہے۔ وہ اپنوں میں مل جل کر ہنسنے اور خوب باتیں کرنے کی محفلیں جہاں بات کم اور زور زور سے بولنے کے دوران ہنسی کی آواز زیادہ سنائی دیتی ہے۔۔۔تلاش ہے تو اسی ہنسی کی جو کرونا کے دئیے فیس ماسک کے پیچھے کہیں گم ہو گئی ہے۔

کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں خوف اتنا نہیں تھا، کیونکہ اس کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل تھا مگر اس کے دنیا بھر میں پھیلتے ہی ہر ملک نے اپنے لوگوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے لاک ڈاؤن، سوشل ڈسٹنسینگ اور ماسک پہننے کی ہدایات جاری کر دیں۔ چلتی گاڑی کا پہیہ رک گیا اور زندگی گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئی۔۔۔

یہ انداز ابھی بدلا نہیں۔۔۔جن لوگوں نے اپنی چار دیواری سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینا چاہا وہ ایک مرتبہ پھر واپس آنے پر مجبور ہو گئے ہیں، کیونکہ وبا نے ایک مرتبہ پھر اپنا زور دکھانا شروع کر دیا ہے۔

ڈاکٹر فرخ قریشی
ڈاکٹر فرخ قریشی

یہ سب انسانی فطرت کے بر خلاف اور اکثر لوگوں کے لئے سخت جھنجلاہٹ کا باعث ہے۔ ایک ایسے مرض کا خوف جس کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا، انسان کی ذہنی حالت کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ڈاکٹر اور طبی تحقیق کے ماہرین کووڈ نائنٹین سے نجات کا علاج اور طریقہ دریافت کرنے کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں وہیں نفسیات اور ذہنی امراض کے ماہرین بھی لوگوں کو خوف، پریشانی اور مایوسی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گویا وہ خوشی تلاش کر رہے ہیں جو شائد عام دنوں میں زندگی سے کبھی عنقا نہیں ہوتی.

ڈاکٹر فرخ قریشی مڈ ویسٹرن یونیورسٹی ایریزونا کے اسسٹنٹ پروفیسر اور امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس میں نیورولوجسٹ ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسان کی فطرت ہے کہ یکسانیت سے اکتا جاتا ہے۔ آجکل گھر میں رہتے ہوئے زیادہ وقت ٹی وی دیکھنا، ایک سی خبریں اور ایک سا ماحول اسے بوریت کا شکار کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسان تبدیلی چاہتا ہے اور اسی سے اسے خوشی ملتی ہے۔ جو لوگ پہاڑ پر رہتے ہیں وہ سمندر کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور جو سمندر کے قریب رہتے ہیں انہیں پہاڑ پسند آتے ہیں۔ کھانا وہی ہے مگر گھر کے بجائے ریستوران میں کھا کر خوش ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اختر حامدی ایریزونا میں ہی سرٹیفائیڈ سائیکایئٹریسٹ اور کریکشنل ہیلتھ کئیر پرووائیڈر ہیں۔ وہ کہتے ہیں خوشی کا تعلق جگہ سے نہیں ہے۔ بلکہ سوچ سے ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اگر ڈیپریشن کا شکار ہیں تو وہ ایسے مقامات پر بھی ناخوش رہتے ہیں جہاں باقی دنیا جا کر خوش ہوتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو اگر بند کمرے میں بھی ہوں تو اپنے لئے کچھ ایسا تلاش کر لیتے ہیں جو انہیں خوشی دے۔

ڈاکٹر اختر حامدی
ڈاکٹر اختر حامدی

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے جو پابندیاں لگی ہیں ان کی وجہ سے ایک ان دیکھی چیز کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔ ایک ایسی چیز جو انسان کو پابند کر سکتی ہے۔ چنانچہ خود پر پابندیاں اتنی ہی لگائیے جتنی ان کی ضرورت ہے۔ اور کوشش کریں کہ سوشل میڈیا اور ایسے ہی ذرائع سے دور رہیں اور اپنا وقت ان کاموں میں صرف کریں جن میں آپ کو دلچسپی ہے خواہ وہ کسی عزیز سے فون پر بات کرنا ہو یا میڈیٹیشن کرنا۔

ڈاکٹر فرخ قریشی کہتے ہیں خوشی کا تعلق ذہن کے علاوہ جسمانی صحت سے بھی ہے اور جب ہم ورزش کرتے ہیں، چہل قدمی کرتے ہیں تو ہمیں اس سے خوشی محسوس ہوتی ہے، کیونکہ اس فزیکل ایکٹیویٹی کے دوران ہمارے دماغ میں ایک کیمیکل خارج ہوتا ہے جسے ڈوپامین کہتے ہیں اور یہ کیمیکل ہمیں خوشی دیتا ہے ۔

ڈوپامین کو نیورو ٹرانسمیٹر بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ جسم اسے تیار کرتا ہے اور اعصابی نظام اس کے ذریعے پیغامات اعصابی خلیوں کو بھیجتا ہے مگر یہ پیغام خوشی کا ہوتا ہے.

ڈاکٹر اختر حامدی کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ کووڈ نائنٹین کا کوئی علاج نہیں اس لئے لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتے ہیں علاج تو کینسر کا بھی کوئی نہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس کے بارے میں بیان میڈیا اور دیگر ذرائع نے اتنا بڑھا چڑھا کر کیا ہے کہ لوگوں کی سوچ ہی بدل گئی ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ انسان کی سوچ ہی اسے چاندنی میں ٹھنڈک یا چاند میں داغ دکھاتی ہے۔

وہ لوگ یقیناً خوش رہتے ہیں، جو رضاکارانہ خدمات انجام دیتے ہیں

ڈاکٹر فرخ قریشی کہتے ہیں نیورو بائیو لوجی نے ثابت کیا ہے کہ وہ لوگ یقیناً خوش رہتے ہیں، جو رضاکارانہ طور پر کوئی کام کرتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کرتے ہیں یا ان کے کام آتے ہیں، چنانچہ ہمیں اپنے ارد گرد دیکھنا چاہئے کہ کسی کو ہماری مدد کی ضرورت تو نہیں۔ انہوں نے کہا دوسروں کو خوشی دے کر جو خوشی ملتی ہے اس کا کو ئی متبادل نہیں۔

ہماری آج کی تحریر کاابتدائیہ تو ہمارے ساتھی اسد نذیر نے دیا تھا۔۔یاسمین جمیل کا کہنا تھا، جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔۔۔انجم گِل فوراً بولے بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشی موجود ہے۔ اپنے بچوں کے بچوں سے بات کریں، برسوں پرانے دوستوں کو سوشل میڈیا پر تلاش کریں۔۔۔اصفر امام بولے انہوں نے تو سوشل میڈیا کو دنیا بھر سے ملاقات کا ذریعہ بنا لیا ہے۔۔۔بہجت کا کہنا تھا چھوٹی چھوٹی خوشیاں دیکھو، ان کے لئے دریا پار نہیں جانا پڑتا۔۔۔قمر جعفری نے ہنستے ہوئے کہ، آئیے ذکر غیر کریں۔ شہناز عزیز سے بات کرنا چاہی تو ہر دم ہنس کے ملنے والی دانت کے درد میں مبتلا نظر آئیں۔۔۔اور درد کے بارے میں اسد حسن کہتے ہیں کوئی درد بھی ایسا نہیں جو لادوا ہو۔۔۔

درد کی دوا پائی ۔۔۔۔ دردِ لا دوا پایا

ہم سے پوچھیں تو ہم تو یہی کہیں گے۔۔۔

دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا

آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا

آڈیو رپورٹ سننے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے۔

جاگتی انکھوں سے خواب تم دیکھا کرو
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:37 0:00

XS
SM
MD
LG