امدادی گروپوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مختلف علاقوں میں مقیم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ زبردست تبادہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق فی الوقت دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی تعداد تین کروڑ ہے۔ بدقسمتی سے ان میں سے بہت سے پناہ گزین ایسے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے لئے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ہنری ریجویل لندن سے اپنی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ جب کہ امیر ممالک اس عالمی وبا سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، بین الااقوامی براداری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں ایسی آبادیوں میں اس وائرس کے پھیلنے کا بروقت تدارک کریں جو با آسانی اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہیں اور اس کام میں تاخیر خوفناک تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔
طبی ماہرین دنیا بھر میں لوگوں کو کرونا وائرس سے بچنے کی تدابیر سے آگاہ کر رہے ہیں۔ مثلا یہ کہ گھروں سے نہ نکلیں، بھیڑ بھاڑ سے گریز کریں اور حفظان کے صحت اصولوں پر سختی سے عمل کریں۔ لیکن وہ بے آسرا لوگ جو کیمپوں میں بکھرے ہوئے ہیں آخر کیا کریں؟ ماہرن کے الفاظ میں یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
لندن کے کنگز کالج میں ہیلتھ ریسرچ گروپ سے منسلک پروفیسر ریچرڈ سلیبن اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ بیشتر پناہ گزین گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے کیمپوں میں گویا قید ہیں، جنھیں صحت اور روزمرہ کی دوسری بنیادی ضرورتیں دستیاب نہیں ہیں۔ ان کا مدافعتی نظام کمزور ہو چکا ہے اوروہ مستقل ذہنی دباؤ کی کیفیت میں ہیں۔
ماہرین اس سلسلے میں بنگلہ دیش میں مقیم مسلمان روہنگیا پناہ گزینوں کی حالت زار کی جانب توجہ دلاتے ہیں جو میانمار میں تشدد سے جان بچا کر سرحد پار کر کے بنگلہ دیش کے شہر کاکس بازار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی تعداد تقریبا دس لاکھ ہے اور وہ نہایت کسمپرسی میں وقت کاٹ رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کیمپوں میں کرونا وائرس کے بارے میں عجیب و غریب اور گمراہ کن معلومات لوگوں کے لئے اور بھی پریشانی کا سبب بن رہی ہیں۔
پروفیسر ریچر سیلیبن کہتے ہیں کہ سرکاری طور پر بنائے گئے کیمپ سے نکل کر بہت سے پناہ گزین مستقل دوسرے مقامات پر آتے جاتے رہتے ہیں جو مزید خطرے کی بات ہے۔ بہت سے پناہ گزین عارضی طور پر بنائی گئی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جہاں سرکاری طور پر مہیا کی گئی سہولتیں ناپید ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنھیں زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔
اسی طرح شام پر نظر ڈالیں تو وہاں ادلب اور صوبے میں جنگ اور تشدد سے جان بچا کر بھاگنے والے اور ترکی اور یونان کی سرحد پر پھنس جانے والے پناہ گزینوں کی حالت بھی خراب ہے جن کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔
اسی طرح کینیا میں تقریبا دو لاکھ پناہ گزین مقیم ہیں۔ علاقے کی ایک نرس کا کہنا ہے کہ یہاں جرائثم سے بچاؤ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور صحت کے حکام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ ہدایات کے منتظر ہیں۔ جب کہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ کہیں بہت تاخیر نہ ہو جائے۔
انھوں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر کرونا وائرس نے اچانک پناہ گزین بستیوں پر حملہ کر دیا تو پھر جائے پناہ مشکل ہو جائے گی۔