کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ امریکہ میں دیگر شعبوں کے علاوہ زرعی شعبہ بھی بے حد متاثر ہوا ہے۔ اور زرعی صنعت سے وابستہ اور زرعی فارموں کے بیشتر مالکان کو تشویش ہے کہ جب ان کی فصل پک کر تیار ہو گی تو ان کے پاس نہ صرف موجودہ فصل کیلئے کافی زرعی کارکن نہیں ہوں گے، بلکہ اگلی فصل بونے میں بھی مشکل ہوگی۔
چنانچہ، کاشتکاروں اور باغات کے مالکوں کی اس مشکل کو سمجھتے ہوئے امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو کارکن پہلے سے امریکہ میں موجود ہیں ان کے ویزوں میں توسیع کر دی جائے گی اور انہیں انٹرویو بھی نہیں دینا پڑے گا۔
اس کے لئے قونصل خانوں کو اختیار دے دیا گیا ہے کی وہ کارکنوں سے انٹرویو کے بغیر ہی ان کے ایچ ٹو اے ویزے میں توسیع کر سکتے ہیں۔
ایچ ٹو اے ویزا کاشتکاروں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک سے عارضی کارکن حاصل کر سکتے ہیں۔
شان آرپ امریکی ریاست فلوریڈا میں میامی کے امرودوں کے باغ کے مالک ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کارکنوں کے ویزوں میں توسیع کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ مارکیٹ نہیں کھلتے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کارکنوں کے ویزے مخصوص تعداد میں ہوتے ہیں اور بعض کمپنیاں بھی انہیں بلا سکتی ہیں۔ ان کا ویزا چھ ماہ کیلئے ہوتا ہے اور یہ سیزن ورکر کہلاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے ویزے میں توسیع کا یہ اعلان کچھ زیادہ کارآمد نہیں ہو گا، کیونکہ فی الحال ان کیلئے کام نہیں ہے۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ ان کارکنوں کو ایسا ویزا دیا جانا چاہیئے کہ وہ کم از کم تین سال کے لئے فارم میں کام کریں اور پھر اس کے بعد گرین کارڈ کیلئے درخواست دیں۔
لیکن یہ چھ ماہ کیلئے آتے ہیں، پھر بعض غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں تو دوبارہ امریکہ نہیں آسکتے۔ یا اگر چھ ماہ کے بعد واپس چلے جاتے ہیں تو آپ کو نئے سرے سے کارکن تلاش کرنے پڑتے ہیں اور نئے سرے سے تربیت دینی پڑتی ہے۔
شان کہتے ہیں کہ مقامی امریکی فارمز میں کام نہیں کرنا چاہتے۔ وہ بے روزگار ہوں تو بے روزگاری الاؤنس کیلئے تو درخواست دیتے ہیں مگر فارم پر کام نہیں کرنا چاہتے۔
شان کہتے ہیں کووڈ 19 کی وجہ سے دیگر امریکی کارکنوں کیلئے جو بحالی کا پروگرام شروع کیا گیا ہے، پی پی پی یعنی پے چیک پروڈکشن پروگرام، اس سے ایچ ٹو اے ویزے پر آئے ان کارکنوں کو فائدہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ یہاں کے مستقل رہائیشی نہیں ہیں۔ اور فارم اگر بند ہیں تو یہ کھائیں گے کہاں سے۔
کرونا وائرس کی وبا نے کھیت سے فصل مارکیٹ تک لانے کے پورے سلسلے کو متاثر کیا ہے۔ اگرچہ مانگ کم نہیں ہوئی مگر کسانوں کو تیار سبزیاں دوبارہ مٹی میں ملانی پڑی ہیں، کیونکہ انہیں مارکیٹ میں پہنچانے کا انتظام نہیں تھا۔ ہزاروں ٹن دودھ اس لئے بہا دیا گیا کہ ڈیری فارم سے پراسسنگ پلانٹ تک پہنچانا ممکن نہیں تھا۔
شان آرپ کی مشکل بھی یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں ان کا پھل مارکیٹ میں نہیں جا رہا۔ اور اگر جا بھی رہا ہے تو بہت ہی کم قیمت پر۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امرود کے ایک ڈبے کی قیمت اگر پینتیس ڈالر تھی تو وہ کم ہو کے صرف پانچ ڈالر رہ گئی ہے چنانچہ اتنے نقصان کے ساتھ کارکنوں کو اپنے ساتھ رکھنا بے حد مشکل ہے اور ویسے بھی ان کا پھل ایک خاص حد تک محفوظ رہ سکتا ہے۔
ایک فصل پکنے کے بعد عموماً دوسری فصل کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ شان کہتے ہیں اس فضا میں اگلی فصل کی تیاری وقت اور پیسے کا زیاں لگتی ہے۔ کیونکہ کچھ پتہ نہیں کہ آئندہ کیا ہونا ہے۔
کرونا وائرس نے دنیا بھر میں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے۔ حکومتیں اپنے لوگوں کی مالی مشکلات کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکی کاشتکار بھی حکومت سے یہی امید کرتے ہیں کہ وہ انہیں نقصان سے بچائے گی۔
امرودوں کے باغ کے مالک شان آرپ بھی کہتے ہیں کہ اگر امریکی محکمہ زراعت کسانوں سے فصل خرید کر مارکیٹ میں سپلائی کرے تو اس سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس بارے میں بات تو ہو رہی ہے مگر تیار فصل خراب ہو رہی ہے اور نئی فصل بونے کا وقت نکلا جا رہا ہے۔