رسائی کے لنکس

امریکہ: مڈ ٹرم کےنتائج کا صدر بائیڈن کی فیصلہ سازی پر کیا اثر ہوگا؟


عام طور پر صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کو حاصل ایڈوانٹج کی بنیاد پر ری پبلکنز زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے پُر امید ہیں۔(فائل فوٹو)
عام طور پر صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کو حاصل ایڈوانٹج کی بنیاد پر ری پبلکنز زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے پُر امید ہیں۔(فائل فوٹو)

امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے قانون ساز ایوانوں میں آنے والی تبدیلیاں اگلے دو برس تک صدر بائیڈن کے فیصلوں اور ملک میں بننے والی پالیسیوں کی سمت کا تعین کریں گی۔

معاشی مسائل پر پائی جانے والی بے چینی اور ہر 10 سال بعد مردم شماری کے بعد انتخابی ڈسٹرکٹس یا حلقہ بندیوں میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ری پبلکنز کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔ جب کہ ڈیمو کریٹک پارٹی اسقاطِ حمل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے ردعمل اور گزشتہ دو برس کے دوران اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔

موجودہ ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کو ری پبلکنز پر معمولی برتری حاصل ہے۔ تاہم 100 رکنی سینیٹ میں دونوں کو 50، 50 نشتیں حاصل ہیں۔ امریکہ میں سینیٹ کے ارکان بھی براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ اس بار سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔

امریکہ میں گزشتہ 100 برس کے دوران وسط مدتی انتخابات کی تاریخ میں تین مواقع کے سوا اپوزیشن زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوتی آئی ہے۔ اگر یہ روایت اس بار بھی برقرار رہی اور کانگریس میں ری پبلکن پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو مستقبل کا منظر نامہ کچھ یوں ہوسکتا ہے۔

ایوانِ نمائندگان میں کیا تبدیلی آئے گی؟

حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کو 2018 میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے بعد ایوانِ نمائندگان میں اکثریت حاصل ہے۔ اس وقت 435 رکنی ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کے 220 جب کہ ری پبلکنز کے 212 ارکان ہیں۔

وسط مدتی انتخابات میں ایوانِ نمائندگان ک تمام نشستوں پر انتخاب ہوتا ہے۔ اس ایوان میں برتری حاصل کرنے کے لیے ری پبلکنز کو کئی کانٹے دار مقابلوں میں سے چند ہی نشتیں حاصل کرنا ہوں گی جس کے لیے وہ پوری کوشش کررہے ہیں۔

عام طور پر صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کو حاصل ایڈوانٹج کی بنیاد پر ری پبلکنز زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے پراُمید ہیں۔

اگر ری پبلکنز آٹھ نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایوان میں قانون سازی کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل ری پبلکنز کریں گے۔ یہی کمیٹیاں اس بات کا فیصلہ کرتی ہیں کہ ایوان میں کون سے قوانین بحث کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

موجودہ ایوان میں ری پبلکن پارٹی کے لیڈر کیون مکارتھی پہلے ہی اپنے ایک بیان میں قانون سازی سے متعلق اپنے مستقبل کے اہداف بیان کرچکے ہیں۔

رواں برس ستمبر میں انہوں نے ریاست پینسلوینیا میں انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ آئندہ منتخب ہونے والی کانگریس کے ابتدائی دنوں ہی میں ری پبلکنز معیشت، سرحدوں کی سیکیورٹی سمیت دیگر پالیسی سمیت ’امریکہ کو نئی سمت دینے‘ کے عزم کے ساتھ قانون سازی کریں گے۔

انتخابی نتائج اور ٹرمپ

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز کو برتری ملتی ہے تو یہ سابق صدر ٹرمپ کی بھی جیت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے ڈیموکریٹس چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر ہونے والے حملے کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔

ایوانِ نمائندگان کے لیے انتخاب میں حصہ لینے والے زیادہ تر ری پبلکنز ٹرمپ کے وفادار تصور ہوتے ہیں اور ان کے مؤقف اور پالیسیوں کے حامی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے امیدوار ہیں جو جتینے کی صورت میں پہلی مرتبہ ایوان میں پہنچیں گے۔

اس لیے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کانگریس میں ری پبلکنز کی برتری کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو کیپٹل ہل حملوں کے لیے جوابدہ بنانے کی کوششیں ناکام ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ آئندہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے امیدوار بننے کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔

ری پبلکنز کی برتری کے صدر بائیڈن کے لیے کیا معنی ہیں؟

ڈیموکریٹس کی ترجیحات میں اسقاطِ حمل تک زیادہ سے زیادہ رسائی، موسمیاتی تبدیلیوں اور گن کنٹرول سے متعلق قوانین بنانا شامل ہے۔ ری پبلکن پارٹی ان کے ایجنڈے کے لگ بھگ ان سبھی نکات سے مختلف پالیسی رکھتی ہے۔ اس لیے قانون ساز ایوانوں میں ری پبلکن کی اکثریت سے بائیڈن کے لیے اپنے دورِ صدارت کے آئندہ دو برسوں میں اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق قانون سازی تقریباً ناممکن ہوجائے گی۔

کانگریس میں آنے والی کسی بھی تبدیلی کے باوجود انتظامی طور پر کسی بھی قانون کے نفاذ کے لیے صدر بائیڈن کی منظوری لازمی رہے گی۔ حکومت کے لیے فنڈز کی فراہمی، عسکری اور دیگر اہم حکومتی امور کا اختیار بھی صدر بائیڈن کے ہی پاس رہے گا۔ البتہ ایسے بلز کی مںظوری کے لیے ری پبلکنز، ڈیموکریٹس اور صدر کو گفت و شنید کرنا پڑے گی۔

صدر جو بائیڈن کئی دہائیوں تک سینیٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔ وہ دونوں پارٹیوں کے مل کر کام کرنے پر زور دیتے آئے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں ری پبلکنز کی جانب سے معاونت کے امکانات کم ہیں اور ممکنہ طور پر صدر بائیڈن کی مخالفت ہی ان کی اولین ترجیح ہو گی۔

سینیٹ میں کیا تبدیلی متوقع ہے؟

اگرچہ سینیٹ میں ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سے کسی کو بھی اکثریت مل سکتی ہے لیکن امکان یہی ہے کہ اس برتری کا فرق بہت زیادہ نہیں ہوگا۔ لہذا صدر بائیڈن کے لیے سینیٹ میں اتفاقِ رائے حاصل کرنا قدرے آسان ہوگا۔ صدر بائیڈن نے قانون سازی میں اب تک جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں دونوں پارٹیز کے اتفاقِ رائے کی کوششوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

امریکہ کی ریاستی اور پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں میں کیا فرق ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:24 0:00

ری پبلکنز کو اگر کانگریس کے دونوں ایوانوں میں برتری حاصل ہوجاتی ہے تو وہ صدر بائیڈن پر سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے کے دونوں ایوانوں سے بلز منظور کرا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایوان میں بننے والی کمیٹیاں بھی ان کے پاس چلی جائیں گی جس کے ذریعے وہ انتظامیہ پر نگرانی اور اسے کے خلاف تحقیقات کا اختیار بھی حاصل کرلیں گے۔

اس طرح ری پبلکن کی اکثریتی سینیٹ عدلیہ اور انتظامیہ میں صدر بائیڈن کی نامزدگیوں کو مؤخر کرکے ان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔

اگر ڈیموکریٹس کامیابب رہے؟

اگر ڈیموکریٹس سینیٹ میں اپنی برتری برقرار رکھنے میں کامیاب رہے اور ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز کو اکثریت حاصل ہوئی تو ان دونوں ایوانوں کے درمیان اتفاقِ رائے کا امکان کم ہی ہے۔ البتہ ری پبلکنز بعض قانون سازیوں پر معتدل ڈیموکریٹس کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اگر ڈیموکریٹس دونوں ایوانوں میں برتری برقرار رکھتے ہیں تو وہ صدر بائیڈن کے ایجنڈے میں شامل ایسے بلز کی مںظور کے لیے کوششوں کا ازسرِ نو آغاز کرسکتے ہیں جن میں انہیں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس میں وہ سماجی و معاشی پروگرامز کا پیکج بھی شامل ہے جس کی منظوری ڈیموکریٹس میں اختلافِ رائے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG