کراچی میں ملک کا ایک بڑا بجلی گھر زیر تعمیر ہے جو کوئلے کی مدد سے بجلی پیدا کرے گا۔ اس بجلی گھر اور دیگر استعمال کے لئے ٹرین کی مدد سے کوئلہ اندرون سندھ، ملک و بیرون ملک سے کراچی لایا جاتا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے عام رکھ دیا جاتا ہے۔
ماڑی پور، ویسٹ وہارف، بن قاسم، محمدی یا مچھر کالونی، کیماڑی، ہاکس بے، کے پی ٹی اور پورٹ قاسم ایسے ہی علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔
یہ تمام علاقے بہت گنجان ہیں۔ ہوا سے کوئلے کے ذرات اڑ اڑ کر قریبی مکانات اور سانس کے ذریعے علاقہ مکینوں کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جن کے سبب انسانی صحت متعدد امراض میں مبتلا ہو رہی ہے، جبکہ صفائی کے مسائل بھی سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کی جانب سے اتاری گئی زیر نظر تصاویر میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ کوئلہ رہائشی بستیوں کے قریب ریلوے ٹریک کے کنارے ہی پھینک دیا گیا ہے۔ گرم موسم کے سبب اس میں آگ بھی لگ سکتی ہے اور تیز ہوا کے تھپیڑے اسے پوری بستی میں جگہ جگہ پھیلا دیں گے۔
کراچی کی ایک پسماندہ بستی محمدی کالونی جسے ’مچھرکا لونی‘ بھی کہا جاتا ہے وہاں کے ایک رہائشی ستار فقرا کا کہنا ہے کہ کوئلے کی وجہ سے ہی انہیں سانس کا مرض ہوگیا ہے۔ پہلے وہ میلوں پیدل چلا کرتے تھے اور مزدوری بھی کیا کرتے تھے مگر اب پچھلے کئی سال سے بستر پر پڑے ہیں۔ سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ تھوڑا سا بھی چلیں تو سانس پھولنے لگتی ہے۔ جن دنوں ہوا تیز چلتی ہے وہ گھر کو ایک طرح کا قید خانہ بناکر اس میں چھپ جاتے ہیں، تاکہ کوئلے سے بچ سکیں۔
علاقے کے کئی اور مکینوں نے شکوہ کیا کہ بار بار کی شکایات کے باوجود ارباب اختیار نے کچھ نہیں کیا، بلکہ پہلے کم کوئلہ یہاں ٹرین سے اتارا اور رکھا جاتا تھا مگر اب اس میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب تو جگہ جگہ کوئلے کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔
اس علاقے میں پولٹری فیڈ تیار کرنے کا کام بھی عام ہے۔ یہ فیڈ مچھلی، جھینگے اور کیچوے کی باقیات کو دھوپ میں سکھا کر تیار کی جاتی ہیں۔ لہذا، یہ کہنا بے معنی ہوگا کہ اس فیڈ میں بھی کوئلے کے ذرات کا ملنا کوئی کمال بات نہیں۔ اس فیڈ کو کھانے والی مرغیوں اور دیگر پرندوں اور جانوروں اور پھر انہیں کھانے والے انسانوں کی صحت پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
سندھ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے مطابق مچھر کالونی اور اس کے قرب و جوار میں 9 لاکھ 40 ہزار ٹن کوئلہ کھلےمقامات پر منتقلی کی غرض سے ٹرین اور ٹرکوں کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔ ایک سال پہلے ادارے نے کے پی ٹی کویہ ذخیرہ کم کرکےصرف دو لاکھ ٹن کرنے کی ہدایت جاری کی تھی کیوں کہ علاقہ مکین اس معاملے کو عدالت میں لے گئے تھے۔
عدالت نے کمپنیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ کے پی ٹی پر5000 ٹن تک کوئلہ اتارسکتے ہیں جبکہ باقی کوئلہ پورٹ قاسم لے جایا جائے۔احکامات کی خلاف ورزی پر کورٹ نے فی ٹن جرمانہ عائد کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ کے پی ٹی پر کوئلہ اتارنے کے لئے عدالت کی اجازت بھی لازمی قراردی گئی تھی۔ لیکن، تب سے اب تک کچھ کمپنیاں جرمانے سے بچنے کے لئے مختلف مقامات پر کوئلہ ذخیرہ کرتی ہیں۔
حال ہی میں انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ نے اسی حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں انکشاف کیا تھا کہ محکمہٴ ریلوے عرصے سے کوئلے کی اندرون ملک نقل و حمل کے لئے ماری پور روڈ کے ساتھ وزیر مینشن ریلوے اسٹیشن استعمال کرتا ہے۔ وی او اے کی زیر نظر مضمون سے منسلک تصاویر میں وزیر مینشن ریلوے اسٹیشن بھی نمایاں طور پر نظر آرہا ہے۔
صحت پر اثرات سے متعلق ماہر ماحولیات ثاقب اعجاز حسین کا کہنا ہے کہ کوئلے کے ذرات سے سانس، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی بنتا ہے۔ کوئلے کے ذخیرے سے دور رہنے والے بھی ہوا کے ذریعے پہنچنے والے ان ذرات سے متاثر ہوتے ہیں۔