رسائی کے لنکس

چین: لاک ڈاؤن سے فضائی آلودگی میں کمی، ہزاروں جانیں بچ گئیں


یہ کرونا وائرس پھوٹنے سے پہلی کی تصویر ہے۔ چین کے شہر ہاربن میں لوگوں نے فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ آلودگی ہر سال چین میں ہزاروں زندگیاں نگل جاتی ہے۔
یہ کرونا وائرس پھوٹنے سے پہلی کی تصویر ہے۔ چین کے شہر ہاربن میں لوگوں نے فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ آلودگی ہر سال چین میں ہزاروں زندگیاں نگل جاتی ہے۔

چین کے ایک صنعتی شہر ووہان میں اس سال کے شروع میں کرونا وائرس پھیلنے کے فوراً بعد حکومت نے وہاں سخت لاک ڈاؤن سے لوگوں کو گھروں میں رہنے اور ٹرانسپورٹ کو سڑکوں سے ہٹانے کے اقدامات کیے تھے۔ اگرچہ عالمی وبا سے چین میں ساڑھے چار ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، لیکن دوسری جانب فضائی آلودگی کم ہونے سے ان ہزاروں لوگوں کی جانیں بھی بچیں، جن کا عام حالات میں ہلاک ہونے کا امکان تھا۔

چین میں سخت لاک ڈاؤن کے دو نمایاں نتائج برآمد ہوئے۔ اول یہ کہ وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملی اور دوسرا یہ کہ ملک بھر میں فضائی آلودگی نصف کے قریب کم ہوئی۔ چین کے کئی بڑے شہروں کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔

ییل سکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہرین نے لاک ڈاؤن کے دوران چین کے شہروں کی فضائی آلودگی کے ڈیٹا پر تحقیق کی ہے جو سائنسی جریدے لینسٹ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 10 فروری سے 14 مارچ تک چین میں سڑکوں سے گاڑیاں ہٹانے سے ملکی فضا میں نمایاں بہتری اور آلودگی میں نصف سے زیادہ کمی ہوئی۔ فضائی آلودگی چین کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے جو ہر سال ہزاروں زندگیاں نگل لیتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہوا کی کوالٹی بہتر ہونے سے وہ ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے جو آلودگی سے منسلک بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ 10 فروری سے 14 مارچ کے عرصے میں ایک ہزار سے زیادہ جانیں بچائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق، چین میں فضائی آلودگی پر کنٹرول سے ہر سال 12125 زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

چین میں کرونا وائرس سے15 مئی تک 4633 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔

تحقیقی رپورٹ کے مصنف اور ییل سکول آف پبلک ہیلتھ کے اسسٹنٹ پروفیسر کائی چن کا کہنا ہے کہ یہ نتائج بڑے حیران کن ہیں۔ اگرچہ کرونا وائرس چین اور دنیا بھر کے لیے بہت برا ثابت ہوا ہے، لیکن دوسری جانب فضا میں مضر صحت دھوئیں اور خورد بینی ذرات کی کمی سے صحت کے لیے کچھ مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پورے چین میں فضائی آلودگی کی سطح غیر معمولی طور پر کم ہوئی۔ مثال کے طور پر نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں لاک ڈاؤن سے پہلے کے لیول کے مقابلے میں 37 فی صد کمی ہوئی۔ اسی طرح فضا میں موجود مضر صحت باریک ذرات کی مقدار چین کے367 شہروں میں 30 فی صد تک گر گئی۔

لاک ڈاؤن کے بعد ووہان کی فضا نمایاں طور پر صاف دکھائی دے رہی ہے۔ 5 مئی 2020
لاک ڈاؤن کے بعد ووہان کی فضا نمایاں طور پر صاف دکھائی دے رہی ہے۔ 5 مئی 2020

نائٹڑوجن ڈائی آکسائیڈ فضا کو آلودہ کرنے والی ایک گیس ہے جو زیادہ تر گاڑیوں اور بجلی کے کارخانوں سے خارج ہوتی ہے۔ 5 جنوری سے 20 جنوری کے دوران ووہان میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح ساڑھے 40 مائیکرو گرام فی معکب میٹر تھی، جو 10 فروری سے 14 مارچ کے لاک ڈاؤن کے دوران کم ہونے کے بعد ساڑھے 18 مائیکرو گرام فی معکب میٹر پر آ گئی۔

نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ فضا میں موجود باریک ذرات میں سے بہت سے انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ان میں نامیاتی اور غیر نامیاتی دونوں طرح کے ذرات شامل ہیں۔ یہ سانس کے ساتھ انسانی پھیپھڑوں میں چلے جاتے ہیں اور کئی طرح کی بیماریاں پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ ان ذرات میں پولن، دھواں، گرد، آبی بخارات اور جلا ہوا کاربن شامل ہیں۔

چین کے زیادہ تر شہروں کی فضا میں ان ذرات کی سطح ساڑھے 62 مائیکروگرام فی معکب فٹ رہتی ہے، جو لاک ڈاؤن کی مدت میں گھٹ کر ساڑھے 36 مائیکروگرام فی معکب فٹ پر چلی گئی تھی۔

اس سے قبل ایک مطالعاتی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین کے 272 شہروں سے متعلق محکمہ صحت کے 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق 12 ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا سبب فضائی آلودگی تھی، جن کی زندگیاں آلودگی پر قابو سے بچائی جا سکتی تھیں۔

تحقیق کے شریک مصنف اور ییل پبلک ہیلتھ اسکول کے پروفیسر پال ٹی انیاسٹس کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے سلسلے میں قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کے تجرے سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ ہم اپنے فضائی ماحول کو بہتر بنا کر اور آلودگی پر قابو پر دنیا بھر میں لاتعداد انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں جو ہماری غفلت کا نشانہ بنتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے مضبوط سیاسی عزم۔

XS
SM
MD
LG