پاکستان کی وزارت داخلہ نے انسداد الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء میں مجوزہ ترمیم کا مسودہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا ہے جس کے تحت آن لائن توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی وہی سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے جو توہین مذہب کے قانون کے تحت اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے مقرر ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ تجویز جمعے کے روز اسلام ہائی کورٹ کے جج عزیز صدیقی کی عدالت میں پیش کی گئی ہے جو سماجی میڈیا پر توہین آمیز مواد کے روک تھام کے لیے حکومت کو موثر اقداما ت کرنے کا کہہ چکے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو پھانسی یا قید کی سزا دی جا سکتی ہے جو چند سال سے لے کے عمر قید تک ہو سکتی ہے۔جب کہ کسی پر جھوٹا الزام لگانے کی سزا چھ ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ ہے۔
اسلام ہائی کورٹ کے جسٹس عزیز صدیقی نے گزشتہ سال سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی تشہر کو روکنے سے متعلق ایک مقدمے پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال روکنے کے لیے ایسی قانون سازی کی جائے جس میں توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سخت سزا دی جا سکے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ سینٹ کی کمیٹی بھی توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کرنے کی معاملے سے نمٹنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کر چکی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور بعض اوقات ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں کہ جن میں لوگ ذاتی عناد کی وجہ سے کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا دیتے ہیں اور چند ایک واقعات میں ملزم کے قانون کی گرفت میں جانے سے قبل ہی مشتعل ہجوم محض الزام کی بنیاد پر اسے تشدد کے ذریعے ہلاک کر دیتا ہے۔
ایسا ہی ایک سنگین ترین واقعہ گزشتہ سال مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں پیش آیا تھا جب اسی یونیورسٹی کے مشتعل طلبا نے نوجوان طالب علم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا اور گولی مار کر ہلاک کر دیا لیکن بعد ازاں تحقیقات میں ان پر لگائے جانے والے الزام کو غلط قرار دیا گیا۔
ایسے ہی واقعات کی بنا پرانسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض سماجی و سیاسی حلقے اس قانون میں ترمیم کے مطالبات کرتی رہی ہیں تاکہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والوں کو سخت سز ا دی جا سکے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس پر صرف قانونی سازی ہی کافی نہیں بلکہ ایسے واقعات کا سبب بننے والے سماجی رویوں اور وجوہات کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔