کینیڈا نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ حکومتی اہل کاروں کے زیر استعمال تمام موبائل آلات میں ٹک ٹاک پر پابندی لگا رہا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چینی ملکیت کی اس ویڈیو شیرنگ ایپ پر مغرب کی تشویش مسلسل بڑھ رہی ہے۔
وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ یہ کارروائی مزید اقدام کی جانب پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے تمام وفاقی ملازمین کو یہ بتانے کے لیے اہم قدم اٹھایا ہے کہ وہ اپنے کام سے منسلک سرکاری الیکٹرانک آلات پر ٹک ٹاک استعمال نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ کینیڈا کے کاروباری اور دیگر افراد بھی اپنے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے ممکنہ طور پر اس اقدام کی جانب راغب ہوں گے۔
اس سے قبل یورپی یونین کی انتظامیہ نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ اس نے اپنی سائبر سیکیورٹی کے لیے اپنے کارکنوں کے زیر استعمال فونز پر ٹک ٹاک استعمال کرنے پر عارضی پابندی لگا دی ہے۔
ٹک ٹاک نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایپ چین کی ایک کمپنی کی ملکیت میں ہے اور اس ملک کے سخت قوانین کے پیش نظر یہ خدشات موجود ہیں کہ بیجنگ اس ایپ کو مغربی صارفین کا ڈیٹا اکھٹا کرنے یا چین نواز بیانیے یا غلط معلومات کو پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
ٹک ٹاک ایک چینی کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ کی ملکیت ہے جس کا ہیڈکوارٹر اب سنگاپور میں ہے۔
کینیڈین ٹریژری بورڈ کی صدر مونا فورٹیر نے کہا کہ وفاقی حکومت مستقبل میں اس ایپ کو سرکاری آلات پر ڈاؤن لوڈ کرنے سے بھی روک دے گی۔
اس خبر کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں