رسائی کے لنکس

برطانوی اور روسی وزرائے خارجہ کا دورہ دہلی، بھارت یوکرین تنازع میں اپنے موقف پر قائم


روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے نئی دہلی میں ملاقات کی۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے نئی دہلی میں ملاقات کی۔

بھارتی سفارت کاری کے تناظر میں موجودہ ہفتہ مصروف ترین ثابت ہوا ہے۔ اس ہفتے میں برطانوی اور روسی وزرائے خارجہ اور امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر نے نئی ہلی کا دورہ کیا۔

تینوں نے یوکرین پر روس کے حملے اور بھارت کی جانب سے روس سے خام تیل کی درآمد کی تیاریوں کے تناظر میں بھارتی اہل کاروں سے تبادلہ خیال کیا۔

پہلے امریکہ میں بین الاقوامی اقتصادیات کے نائب مشیر (ڈپٹی این ایس اے) نے بدھ اور جمعرات کو نئی دہلی کا دورہ کیا۔ اس کے بعد برطانیہ کی وزیر خارجہ لِز ٹرس نے جمعرات کو اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے ملاقات اور روس سے خام تیل کی خرید کے بارے میں گفتگو کی۔ اس کے بعد روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعے کو ایس جے شنکر سے مذاکرات کیے۔

روسی وزیر خارجہ نے جے شنکر سے مذاکرات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر نئی دہلی ماسکو سے خام تیل خریدنا چاہتا ہے تو ماسکو اس پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ بھارت اگر کچھ بھی روس سے خریدنا چاہتا ہے تو روس اس پر گفتگو کر سکتا ہے۔

لاوروف نے نیوز کانفرنس میں بھارت کی خارجہ پالیسی کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر جانبدار اور آزاد ہے اور جائز قومی مفادات کے تحت ہے۔

ان کے بقول روس کی بھی یہی پالیسی ہے اور اس کی وجہ سے ہی ہم بڑے ملک، اچھے دوست اور وفادار شریک کار ہیں۔ بھارت اور روس کے باہمی تعلقات کی تاریخ میں دوستی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

انھوں نے روس اور یوکرین کے درمیان تنازع میں بھارت کی ثالثی کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اگر بھارت ایسا کردار ادا کرنا چاہے گا تو روس اس کی حمایت کرے گا۔


ایس جے شنکر نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہ روسی ہم منصب سے ان کی ملاقات مشکل عالمی ماحول میں ہو رہی ہے، کہا کہ بھارت ہمیشہ مذاکرات اور سفارت کاری سے اختلافات کو دور کرنے کے حق میں رہا ہے۔

سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن نے برطانوی و امریکی اہل کاروں کے دورے کو بھارت پر دباؤ ڈالنے سے تعبیر کیا۔ تاہم یہ بھی کہا کہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد جو موقف اختیار کیا تھا اس پر اب بھی قائم ہے۔ اس نے اس کے ساتھ ہی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دباؤ میں آنے والا نہیں ہے۔

ان کے خیال میں بھارت نے روسی وزیر خارجہ کے سامنے بھی اپنے موقف کا اعادہ کیا۔ یعنی اس نے بالواسطہ طور پر یہ بتا دیا ہے کہ یوکرین میں جو بم برسائے جا رہے ہیں، بھارت اس کی حمایت نہیں کرتا۔

برطانیہ کی وزیر خارجہ لز ٹرس نے جمعرات کو اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے ملاقات کی اور گفتگو کے دوران بار بار روسی جارحیت کا حوالہ دیا۔ لیکن ایس جے شنکر نے ایک بار بھی روس کا نام نہیں لیا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کا مقصد روس سے خام تیل کی درآمد روکنا تھا۔ لیکن جے شنکر نے کہا کہ روس پر پابندیوں کی بات ایسے کی جا رہی ہے جیسے کہ یہ کوئی مہم ہو۔ انھوں نے واضح کیا کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، یورپ نے روس سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیل خریدا ہے۔

ان کے بقول یورپ نے ایک ماہ قبل کے مقابلے میں روس ے 15 فیصد زیادہ تیل اور گیس کی خرید کی ہے۔ ان کے بقول بھارت توانائی کی اپنی زیادہ تر ضرورتیں مشرق وسطیٰ سے پوری کرتا ہے۔ اس نے ماضی میں امریکہ سے ساڑھے سات آٹھ فیصد توانائی حاصل کی ہے، جب کہ روس سے بہت کم درآمدکی ہے۔

یوکرین سے لوٹنے والے کشمیری طلبہ خوش بھی اور پریشان بھی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:06 0:00


اس سلسلے میں پشپ رنجن کہتے ہیں کہ بھارت کا روس کی گیس پر اس طرح انحصار نہیں ہے جس طرح یورپ کا ہے۔ بھارت کو خام تیل کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ روس سے بہت زیادہ خام تیل درآمد نہیں کر رہا۔

ان کے بقول اس نے رواں مالی سال میں روس سے صرف 0.419 ملین میٹرک ٹن خام تیل درآمد کیا ہے، جب کہ رواں مالی سال میں اس نے دوسرے ملکوں سے کل 175.9 میٹرک ٹن خام تیل درآمد کیا ہے۔

ان کے مطابق بھارت دنیا کے دس ملکوں سے خام تیل برآمد کرتا ہے جن میں عراق سرفہرست ہےجس سے بھارت اپنی ضرورتوں کا تیس فیصد تیل درآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب سے 18 فیصد، متحدہ عرب امارات سے 11.3 فیصد، نائجیریا سے آٹھ فیصد اور امریکہ سے سات اعشاریہ تین فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ جتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت روس کے تیل پر انحصار کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بھارت کو توانائی کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسے ہر سال 1800 ملین میٹرک ٹن خام تیل چاہیے۔ لیکن 2020-21 کے مالی سال میں خام تیل کی درآمد کم ہوئی تھی۔ اس سال 1440.3 ملین بیرل تیل درآمد ہوا تھا۔ 2021-22 کے سال میں 1289.3 بیرل خام تیل درآمد ہوا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ نے روس سے تیل کی خرید کے سلسلے میں کہا کہ ہم نے اقتصادی پابندیوں کے سلسلے میں برطانوی موقف کی نشاندہی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سال کے آخر تک روس کے تیل پر اپنا انحصار ختم کر دیں گے۔

ان کے بقول بھارت ایک خود مختار ملک ہے۔ ہم اس کو یہ بتانے نہیں جا رہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ لیکن برطانوی حکومت نے بوڈاپیسٹ میمورنڈم پر دستخط کیے ہیں اور یوکرینی عوام کی حمایت کرنا برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ہم دوسرے ملکوں سے نہیں کہیں گے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔

پشپ رنجن کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور مغربی ملک چاہتے ہیں کہ روس پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اس کے پیش نظر بھارت اس سے تیل نہ خریدے، جب کہ روس اور بھارت باہمی کرنسیوں یعنی روبل اور روپے میں تیل کی ادائیگی کی راہ تلاش کر رہے ہیں تاکہ امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی بھی نہ ہو اور ان پابندیوں کا اس پر کوئی اثر بھی نہ پڑے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بھارتی نژاد دلیپ سنگھ نے بدھ اور جمعرات کو بھارتی اہل کاروں سے ملاقات کی اور انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اقتصادی پابندیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی تو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انھوں نے جمعرات کو وزیر اعظم کے دفتر اور وزارت خارجہ کے اہل کاروں سے تبادلہ خیال کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس اور چین کے بڑھتے تعلقات کے پیش نظر اگر چین نے ایل اے سی پر جارحیت کی تو روس بھارت کی مدد کے لیے نہیں آئے گا۔


تاہم انھوں نے روس سے خام تیل کی خرید کے سلسلے میں کہا کہ امریکہ نے بھارت کے لیے کوئی ریڈ لائن نہیں کھینچی ہے۔ بھارت کی جانب سے توانائی کی موجودہ درآمد سے اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، کیونکہ توانائی کی درآمد پابندی سے مستثنیٰ ہے۔

پشپ رنجن نے نتائج کا سامنا کرنے کے بیان کے حوالے سے کہا کہ سفارت کاری میں یہ ایک غیر سنجیدہ بیان ہے۔ سفارت کاری میں ایسے بیانات نہیں دیے جاتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک طرف دھمکی بھی دی جا رہی ہے اور دوسری طرف بھارت سے اپنے رشتوں کی اہمیت بھی بتائی جا رہی ہے۔

ادھر وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ کے ڈپٹی این ایس اے نے اپنے بھارتی ہم منصب سے بامعنی گفت و شنید کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ڈائرکٹر مواصلات کیٹ بیڈنگفیلڈ نے کہا کہ دلیپ سنگھ نے یوکرین کے خلاف روس کی بلا جواز جنگ پر بھی تبادلہ خیال کیا؛جب کہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک علیحدہ نیوز کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ کے نئی دہلی دورے کے سلسلے میں کہا کہ ہر ملک کے اپنے تعلقات ہوتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی اور جغرافیائی حقیقت ہے۔ ہم اسے بدلنا نہیں چاہتے۔

خیال رہے کہ آسٹریلیا نے بھی روس سے خام تیل کی درآمد پر غور کرنے کے لیے بھارت پر تنقید کی ہے۔ آسٹریلیا کے وزیر تجارت ڈان تیہان نے کہا کہ جمہوریتوں کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ متحد ہو کر کام کریں۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت بھارت کثیر قطبی سفارت کاری کی قیادت کر رہا ہے۔ وہ کسی ایک فریق کی جانب نہیں ہے۔ اسی لیے روس نے بھی اس کی پالیسی کی حمایت کی ہے۔

ان کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے رابطے میں ہیں اور اس تنازع کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG