برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان پیر کے روز بریگزٹ ٹریڈ سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے آخری وقت تک اختلافات دور کرنے سے متعلق کوششیں جاری ہیں، کیوں کہ 31 دسمبر کو برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا اور کسی سمجھوتے کی عدم موجودگی میں اس کا انخلا غیر منظم ہو گا۔
یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان پیر کو بریگزیٹ ٹریڈ مذاکرات کا آغاز بھرپور انداز میں شروع ہوا، لیکن کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ برطانیہ اور یورپی یونین بظاہر انہی معاملات پر ابھی تک اٹکے ہوئے ہیں جس نے تعطل کو کئی ماہ سے برقرار رکھا ہوا ہے۔
پیر کو یورپی یونین کے چیف مذاکرات کار مائیکل بارنئیر نے 27 رکن ملکوں کے سفیروں کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ ابھی تک کوئی سمجھوتہ طے نہیں پایا تاہم یکم جنوری کی ڈیڈ لائن سے قبل لندن کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ممکن ہو سکتا ہے۔
آج شام برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن اور یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈر برسلز میں دوبارہ بات چیت کا آغاز کریں گے اور صورت حال پر نظر ثانی کریں گے۔
آئرلینڈ کے وزیر اعظم، مائیل مارٹن کا اتوار کے روز کہنا تھا کہ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے امکانات آدھے آدھے ہیں۔
یورپی یونین کا منصب صدارت ہے، اس وقت جرمنی کے پاس ہے۔ یورپی یونین کیلئے جرمنی کے ترجمان سبیسچئین فشر کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے تعلقات کیلئے یہ فیصلہ کن وقت ہے۔
وزیر اعظم جانسن اور یورپی کمشنر کی صدر نے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر حکومتی عمل داری، ماہی گیری اور یکساں مقابلے کے اصولوں پر اختلافات ختم نہ ہوئے تو کسی بھی قسم کا تجارتی معاہدہ سود مند نہیں ہو گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان کوئی تجارتی معاہدہ نہ ہوا تو کرونا کے دور میں یورپ اور برطانیہ کی معاشی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہے۔
تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تجارتی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو تجارتی سامان کی نقل و حمل اور لوگوں کی آمدورفت میں خلل پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ برطانیہ 27 رُکنی یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ اور کسٹم یونین سے الگ ہو جائے گا۔