کراچی —
ناظم آباد کے رہائشی شجاع الحسینی ان دنوں خوشیوں کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ ان کی بیوی، تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت خود کا کینیڈا کا امیگریشن ویزا لگ گیا ہے۔ وہ جلد ہی کراچی سے ٹورنٹو روانہ ہو رہے ہیں۔ وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں آنکھوں میں سنہرے خواب سجائے دیار ِغیر ہجرت کرنے والے پڑھے لکھے اور کاروبای لوگوں میں شامل ہیں۔
تجارتی اور رہائشی اراضی کی خرید و فروخت کا اچھا خاصا کاروبار اور تجربہ رکھنے والے شجاع نے چار سال پہلے امیگریشن ویزا کے لئے کاغذات جمع کرائے تھے، اب جاکر کہیں ان کا نمبر آیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں اپنے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے شجاع کہتے ہیں، ’یہاں کے حالات ہی ایسے ہیں۔ توانائی کا بحران سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہر شعبے میں مافیا آن پہنچی ہے۔ کرپشن، لاقانونیت اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے کوئی کرے بھی تو کیا کرے۔ کئی سال سے سوچ رہا تھا کہ ملک چھوڑ دوں۔ یہی سوچ کر کینیڈین امیگریشن ویزا کے لئے درخواست دی تھی، قسمت اچھی تھی کہ جلد نمبر آ گیا‘۔
شجاع کی ڈیڑھ، دو سطری اس بات میں سوچنے والوں کے لئے بہت سے معنی پوشیدہ ہیں ۔ان مسائل سے صرف شجاع یا ان کے اہل ِخانہ ہی نہیں بلکہ بے شمار دوسرے لوگ بھی عرصے سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔ جب کوئی بس نہیں چلتا تو تھک ہار کر شجاع کی طرح کے تمام لوگ کسی محفوظ، پُرسکون اور خوابوں کی تعبیر حقیقت میں بدل دینے والے نئے جہانوں کو ہجرت کرجاتے ہیں۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان سے پڑھے لکھے، کاروباری، تجارتی ، ہنرمندوں اور سرمایہ کاروں کی بیرون ملک ہجرت کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں اور ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری2008سے لے کرستمبر2013تک مجموعی طور پر27 لاکھ 65 ہزار 7 سو 89 افراد نے پاکستان کو خیر باد کہہ کر دوسرے ملکوں کا رخ کیا۔
ان میں سے اکتیس ہزار چھ سو سات افراد کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ پاکستان سے جانے والوں میں ایسے ورکرز بڑی تعداد میں موجود تھے جن کو غیر ملکی ایمپلائرز نے ’رائٹ پرسن فور رائٹ جاب‘ کے پیمانے پر اچھی طرح پرکھنے کے بعد ہی انہیں دیار ِ غیر بلا۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی وزارت کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل سن 1981سے 2012 تک کی مدت کے دوران 59 لاکھ 73 ہزار 5 سو 39 افراد نے بیرون ِملک پناہ لی۔ قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ صرف ایک سال یعنی 2012ء میں 41 ہزار 4 سو 98 پیشہ ور ماہرین اور ہنرمندوں نے پاکستان کے بجائے دوسرے ممالک جانے کے لئے رخت ِسفر باندھا۔
اتنی بڑی تعداد میں پڑھے لکھے افراد اور ہنرمندوں کا ملک چھوڑ دینا غیر معمولی بات ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اب تک یہاں قائم ہونے والی کوئی بھی حکومت اس ہجرت کوروکنے کے لئے نہ تو کچھ ہی سکی ہے اور نہ ہی وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس منتقلی کے وطن پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
لمحہ ِفکریہ یہ ہے کہ اگر پیشہ ور ماہرین، ہنرمندوں اور تعلیم یافتہ افراد کا بیرون ملک منتقلی کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو پاکستان رفتہ رفتہ انسانی وسائل سے محروم ہوجائے گا۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے جاری کردہ اعداو شمار کے مطابق زیادہ تر پاکستان سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، عمان اور یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ ہجرت آسان نہیں ہوتی اس کے لئے کثیر سرمائے، مقررہ تعلیمی قابلیت اور دیگر مطلوبہ چیزوں اور مصدقہ دستاویزات کی سخت ضرورت رہتی ہے۔ لیکن ہجرت کرنے والے کئی کئی سال تک ان تمام ’ضروریات‘ کے حصول کے لئے سخت جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ وغیرہ جانے کے لئے مختلف قسم کے مشکل ترین تعلیمی ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوتے ہیں۔ جس کی تیاری کے لئے کراچی میں گلشن ِاقبال، گلبرگ اور نارتھ ناظم آباد سمیت مختلف علاقوں میں باقاعدہ انسٹی ٹیوٹس قائم ہیں جو بھاری بھاری فیس کے عوض ان ٹیسٹس کی تیاری کراتے ہیں۔
نیپا چورنگی گلشن اقبال میں واقع ایسی ہی ایک پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ سر اظہر نے وی او اے کو بتایا کہ وہ پچھلے 18سالوں سے یہی کام کرتے آرہے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے پاکستان میں عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد کے خیال میں ان مشکلات کا بیرون ملک منتقل ہوجانا ہی واحد حل ہے اسی لئے بیرون ملک منتقل ہو نے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
تجارتی اور رہائشی اراضی کی خرید و فروخت کا اچھا خاصا کاروبار اور تجربہ رکھنے والے شجاع نے چار سال پہلے امیگریشن ویزا کے لئے کاغذات جمع کرائے تھے، اب جاکر کہیں ان کا نمبر آیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں اپنے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے شجاع کہتے ہیں، ’یہاں کے حالات ہی ایسے ہیں۔ توانائی کا بحران سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہر شعبے میں مافیا آن پہنچی ہے۔ کرپشن، لاقانونیت اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے کوئی کرے بھی تو کیا کرے۔ کئی سال سے سوچ رہا تھا کہ ملک چھوڑ دوں۔ یہی سوچ کر کینیڈین امیگریشن ویزا کے لئے درخواست دی تھی، قسمت اچھی تھی کہ جلد نمبر آ گیا‘۔
شجاع کی ڈیڑھ، دو سطری اس بات میں سوچنے والوں کے لئے بہت سے معنی پوشیدہ ہیں ۔ان مسائل سے صرف شجاع یا ان کے اہل ِخانہ ہی نہیں بلکہ بے شمار دوسرے لوگ بھی عرصے سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔ جب کوئی بس نہیں چلتا تو تھک ہار کر شجاع کی طرح کے تمام لوگ کسی محفوظ، پُرسکون اور خوابوں کی تعبیر حقیقت میں بدل دینے والے نئے جہانوں کو ہجرت کرجاتے ہیں۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان سے پڑھے لکھے، کاروباری، تجارتی ، ہنرمندوں اور سرمایہ کاروں کی بیرون ملک ہجرت کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں اور ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری2008سے لے کرستمبر2013تک مجموعی طور پر27 لاکھ 65 ہزار 7 سو 89 افراد نے پاکستان کو خیر باد کہہ کر دوسرے ملکوں کا رخ کیا۔
ان میں سے اکتیس ہزار چھ سو سات افراد کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ پاکستان سے جانے والوں میں ایسے ورکرز بڑی تعداد میں موجود تھے جن کو غیر ملکی ایمپلائرز نے ’رائٹ پرسن فور رائٹ جاب‘ کے پیمانے پر اچھی طرح پرکھنے کے بعد ہی انہیں دیار ِ غیر بلا۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی وزارت کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل سن 1981سے 2012 تک کی مدت کے دوران 59 لاکھ 73 ہزار 5 سو 39 افراد نے بیرون ِملک پناہ لی۔ قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ صرف ایک سال یعنی 2012ء میں 41 ہزار 4 سو 98 پیشہ ور ماہرین اور ہنرمندوں نے پاکستان کے بجائے دوسرے ممالک جانے کے لئے رخت ِسفر باندھا۔
اتنی بڑی تعداد میں پڑھے لکھے افراد اور ہنرمندوں کا ملک چھوڑ دینا غیر معمولی بات ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اب تک یہاں قائم ہونے والی کوئی بھی حکومت اس ہجرت کوروکنے کے لئے نہ تو کچھ ہی سکی ہے اور نہ ہی وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس منتقلی کے وطن پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
لمحہ ِفکریہ یہ ہے کہ اگر پیشہ ور ماہرین، ہنرمندوں اور تعلیم یافتہ افراد کا بیرون ملک منتقلی کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو پاکستان رفتہ رفتہ انسانی وسائل سے محروم ہوجائے گا۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے جاری کردہ اعداو شمار کے مطابق زیادہ تر پاکستان سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، عمان اور یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ ہجرت آسان نہیں ہوتی اس کے لئے کثیر سرمائے، مقررہ تعلیمی قابلیت اور دیگر مطلوبہ چیزوں اور مصدقہ دستاویزات کی سخت ضرورت رہتی ہے۔ لیکن ہجرت کرنے والے کئی کئی سال تک ان تمام ’ضروریات‘ کے حصول کے لئے سخت جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ وغیرہ جانے کے لئے مختلف قسم کے مشکل ترین تعلیمی ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوتے ہیں۔ جس کی تیاری کے لئے کراچی میں گلشن ِاقبال، گلبرگ اور نارتھ ناظم آباد سمیت مختلف علاقوں میں باقاعدہ انسٹی ٹیوٹس قائم ہیں جو بھاری بھاری فیس کے عوض ان ٹیسٹس کی تیاری کراتے ہیں۔
نیپا چورنگی گلشن اقبال میں واقع ایسی ہی ایک پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ سر اظہر نے وی او اے کو بتایا کہ وہ پچھلے 18سالوں سے یہی کام کرتے آرہے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے پاکستان میں عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد کے خیال میں ان مشکلات کا بیرون ملک منتقل ہوجانا ہی واحد حل ہے اسی لئے بیرون ملک منتقل ہو نے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔