برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پیر کے روز ایوان نمائندگان میں ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک میں اپنی وزارت عظمیٰ بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بورس جانسن کرسی بچانے میں تو کامیاب رہے ہیں لیکن اس بحران کے بعد وہ ایک کمزور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے ہیں اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
بورس جانسن عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے ایوان میں موجود 359 ممبران میں سے محض 211 کا ووٹ حاصل کر سکے جو ان کی کرسی بچانے کے لیے کافی تھے، لیکن ایوان میں حزب اختلاف سمیت انہیں اپنی ہی پارٹی کے 148 ممبران کی بغاوت کا سامنا ہے۔
جانس اپنے خلاف سکینڈلز پر عام طور توجہ نہیں دیتے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں وہ اپنے اور ساتھیوں کے بارے میں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران منعقد کی جانے والی پارٹیوں کی خبروں کے باعث سیاسی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔
اے پی کے مطابق برطانوی وزیراعظم اپنے ووٹرز کے ساتھ رابطے رکھنے میں ماہرانہ تجربہ رکھتے ہیں۔البتہ، رپورٹ کے مطابق، کنزرویٹو پارٹی میں ان کی حمایت میں کمی آئی ہے اورآئندہ انتخابات میں ان کے بطور امیدوار حصہ لینے پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق پارٹی میں اور حزب اختلاف میں ان کے پائے کا کوئی لیڈر موجود نہیں ہے اس لیے اکثر سیاسی تبصرہ نگار پیشگوئی کر رہے ہیں کہ وہ اس چیلنج سے کامیابی سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔
لیکن موجودہ بغاوت ان کے لیے انتہائی اہم لمحہ ہے۔ اس تحریک عدم اعتماد سے پارٹی میں تقسیم مزید واضح ہوچکی ہے۔
یاد رہے کہ محض تین برس پہلے بورس جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی نے بھاری اکثریت سے برطانیہ کے انتخابات جیتے تھے۔