امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ شام سے اُس وقت تک فوجیں واپس نہیں بلائے گا جب تک ترکی سے یہ معاہدہ طے نہیں پا جاتا کہ وہ شام کے شمالی علاقے میں کردوں پر حملے نہیں کرے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کیا تھا جس کے بعد شام میں موجود امریکی حمایت یافتہ کردوں میں خوف کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ اُدھر ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام کے شمال میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ بقول اُس کے وہ کرد دہشت گردوں کے اتحادی ہیں۔
امریکہ کی طرف سے شام میں موجود اپنے 2,000 کے لگ بھگ فوجیوں کو واپس بلانے کے اعلان سے ان خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ تنازعے میں شریک دیگر فریق اس خلا کو پورا کرنے کیلئے میدان میں اتر جائیں گے۔ ترکی نے کردوں کے خلاف حملے تیز کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور امکان ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد روس بھی تیل سے مالا مال اس خطے میں کود پڑے گا۔ اُدھر اسرائیل نے شام میں ایرانی مداخلت کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی خدشہ پایا جاتا ہے کہ داعش شام کا وہ علاقہ دوبارہ حاصل کرنے کیلئے حملے شروع کر دے گا جو اُس نے کھو دیا تھا۔
تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیوں کو شام سے واپس بلا لیا جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلا رہے ہیں۔ تاہم یہ انخلاء عجلت میں نہیں کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو شام روانہ کیا ہے تاکہ وہ وہاں علاقائی اتحادیوں ترکی اور اسرائیل سے اس بارے میں مشاورت کر سکیں۔ جان بولٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ شام کے شمالی علاقے سے انخلاء اس انداز میں کرے گا کہ داعش کو شکست ہو اور وہ دوبارہ سر نہ اُٹھا سکے اور وہ دوبارہ خطرہ نہ بن سکے۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اسرائیل اور خطے میں دیگر اتحادیوں کے علاوہ اُن فریقین کے دفاع کو بھی یقینی بنائے گا جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف جنگ کی ۔
شام اور عراق دونوں میں داعش کے خلاف جنگ میں کرد اگلے محاذوں پر موجود رہے۔ امریکی انخلاء کے نتیجے میں کردوں کو شام کی سرکاری فوجوں اور ترکی کی طرف سے حملوں کا خطرہ ہو گا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردووان حملے ملتوی کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں تاہم اُنہوں نے یہ حملے منسوخ نہیں کئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ان حملوں کا مقصد شام کے شمالی علاقے سے دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہے۔ اردووان نے کہا، ’’ٹرمپ صاحب کی طرف سے فون موصول ہونے، سفارتی اور سیکورٹی اہلکاروں کے رابطوں اور امریکیوں کی طرف سے اعلانات کی وجہ سے ہم کچھ عرصے کیلئے انتظار کرنے کرنے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن یہ انتظار طویل مدت کیلئے نہیں ہو گا۔
قومی سلامتی کے مشیر بولٹن کا کہنا ہے کہ ترکی کی طرف سے کردوں کو ہلاک نہ کرنے کے معاہدے کے بغیر شام سے امریکی انخلاء نہیں ہو گا۔ اُنہوں نے کردوں کو ثابت قدم رہنے اور شامی حکومت سے کوئی معاہدہ طے کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔