رسائی کے لنکس

الوداع 'آسمان کی ملکہ؛' بوئنگ نے 747 طیارے کی پروڈکشن روک دی


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

طیارے بنانے والی امریکی کمپنی بوئنگ نے اپنے سیون فور سیون(747) جمبو جیٹ کو الوداع کہہ دیا ہے۔اس طیارے کو اپنے غیر معمولی حجم اور گنجائش کی وجہ سے کبھی ’وہیل‘ تو کبھی ’آسمان کی ملکہ‘ بھی کہا جاتا تھا۔

اس طیارے کی پہلی پرواز 1969 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے 747 طیارے کارگو، 500 مسافروں کی گنجائش والی کمرشل پروازوں، ناسا کی اسپیس شٹل کی نقل و حرکت اور امریکہ کے صدارتی طیارے ’ایئر فورس ون‘ کے طور پر بھی استعمال ہوا۔

اس طیارے نے ہوائی سفر میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ ان طیاروں کی بدولت ان شہروں کے درمیان بھی براہ راست پروازیں ممکن ہوئیں جس کا تصور بھی محال تھا۔ سفر کی اس آسانی نے بین الاقوامی سطح پر لوگوں کے ایک دوسروں کے رابطے کو بھی بڑھایا۔

لیکن گزشتہ 15 برس کے دوران بوئنگ اور اس کی یورپی حریف ایئر بس کمپنی نے زیادہ منافع بخش، کم ایندھن استعمال کرنے والے، زیادہ گنجائش کے طیارے بنائے۔ان نئے طیاروں میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ 747 کے چار انجن کے برعکس ان میں صرف دو انجنز تھے۔

بوئنگ نے 747 کا آخری طیارہ ریاست واشنگٹن میں تیار کیا ۔ کمپنی نے مجموعی طور پر 1574 بوئنگ 747 طیارے تیار کیے۔

بوئنگ 747 کو الوداع کہنے کے لیے کمپنی کے موجوہ اور سابق ملازمین پر مشتمل بڑا مجمع متوقع ہے۔ اس ماڈل کا آخری طیاری اٹلس ایئر کو کارگو مقاصد کے لیے فراہم کیا جائے گا۔

اس طیارے نے 1970 کی دہائی میں پرواز کا آغاز کیا۔
اس طیارے نے 1970 کی دہائی میں پرواز کا آغاز کیا۔

’یہ دن آنا ہی تھا‘

ہوا بازی کی صنعت کے ماہر رچرڈ ابولفیا کا کہنا ہے کہ اگرآپ اس کاروبار کو پسند کرتے ہیں تو بوئنگ کی پیداوار بند ہونے کے لیے آپ دن گن رہے ہوں گے۔

ان کے مطابق کوئی ایئرلائن چار انجنوں سے چلنے والے طیارے نہیں چاہتی تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ 747 نے ہوا بازی کی صنعت کو ترقی دینے کے لیے جو کردار ادا کیا ہے اسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ یہ طیارہ اپنے پیچھے ایک شاندار ورثہ چھوڑ کر جارہا ہے۔

بوئنگ کا پہلا طیارہ بوئنگ کے 50 ہزار سے زائد ورکرز نے 16 ماہ کی مدت میں بنایا تھا۔ اس منصوبے کے لیے سیاٹل کے شمال میں ایک بہت بڑی فیکٹری بنائی گئی تھی۔

اس طیارے کے فیوزلاج یا باڈی کی لمبائی 225 فٹ اور دم کی اونچائی چھ منزلہ عمارت کے برابر تھی۔ اس طیارے کے اندر ایک تہائی حجم تک دوسرا ڈیک یا سمجھیے منزل بھی بنائی گئی تھی۔ اس قدر بڑا حجم ہونے کی وجہ سے اس طیارے کو ’وہیل‘ بھی کہا جاتا تھا۔ بوئنگ 747 کو ’آسمانوں کی ملکہ‘ کا شاعرانہ نام بھی دیا گیا۔

طیارے کے دوسرے ڈیک کو بعض ایئر لائنز نے فرسٹ کلاس کوکٹیل لاؤنج میں بھی تبدیل کردیا۔ اسی طرح نچلے ڈیک میں بھی بعض مرتبہ لاؤنجز اور پیانو بار بنائے جاتے تھے۔

ہوائی سفر کی تاریخ میں مہارت رکھنے والے پینسلوینیا کے البرائٹ کالج کے پروفیسر گیولامے دی سیون کا کہنا ہے کہ یہ بڑا طیارہ تھا اور اس کی باڈی بہت وسیع و عریض تھی۔ اس لیے ایئر لائنز نے سفر کا معیار بلند کرنے کے لیے اس کی وسعت کو نت نئے طریقوں سے استعمال کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ بوئنگ 747 میں پائی جانے والی گنجائش کی وجہ سے اس پر زیادہ لوگوں کو سوار کرنے کے لیے کرایے کم کرنا پڑے۔ اس کے نتیجے میں 1970 کی دہائی میں فضائی سفر کے کرایوں سے متعلق ضابطوں میں تبدیلی آئی۔

تاریخ کے اتار چڑھاؤ

بوئنگ 747 کے پہلے طیارے نے 1970 نیویارک سے لندن کا سفر طے کیا۔ لیکن یہ اس طیارے کو متعارف کرانے کا انتہائی نامناسب وقت ثابت ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے کچھ ہی عرصے بعد 1973 میں تیل کا بحران پیدا ہو گیا۔ اس سے قبل کساد بازاری کی وجہ سے بوئنگ کمپنی نے اپریل 1971 میں اپنے ملازمین کی تعداد کم کرکے تقریباً 39 ہزار کردی جو 1967 میں ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔

اس کے بعد 80 کی دہائی میں جب 747 طیارے کی 400 سیریرز کا نیا ماڈل متعارف کرایا گیا تو یہ بہت موزوں وقت تھا۔ اس کے بعد 1990 کی دہائی میں ایشیائی معیشتوں میں ترقی کا دور شروع ہوا۔

ہوابازی کی صنعت کے ماہر رچرڈ ابولفیا کہتے ہیں کہ اس دور میں فضائی سفر بہت سستا ہوگیا۔ کئی نوجوان سیاحوں نے ایشیا کا رُخ کیا۔ اس پرواز کو ایندھن کے لیے الاسکا اور ہوائی نہیں رکنا پڑتا تھا اور براہِ راست پرواز کی وجہ سے کرائے بھی کم ہوتے تھے۔

امریکہ میں ’ڈیلٹا‘ بوئنگ کے 747 طیارے استعمال کرنے والی آخری ایئر لائن تھی۔ اس ایئر لائن نے 2017 میں اس طیارے کا استعمال بند کردیا تھا۔ تاہم جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا سمیت کئی دیگر بین الاقوامی نے اس کا استعمال جاری رکھا۔

گزشتہ برس کے آغاز میں اٹلس ایئر نامی ایئر لائن نے چار 747 فریٹ طیاروں کا آرڈر کیا تھا۔ ان میں سے آخری طیارہ منگل کو تیار کرلیا گیا اور کمپنی مزید یہ طیارہ نہیں بنائے گی۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG