رسائی کے لنکس

بلنکن کا شاہ محمود قریشی سے رابطہ، افغان امن عمل سے متعلق مشترکہ کوششوں پر اتفاق


پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں دونوں عہدے داروں نے افغان امن عمل میں مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، اس رابطہ میں افغان صدر اشرف غنی اور چیئرمین عبداللہ عبداللہ کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد افغانستان میں امن عمل کے لیے پاک امریکہ تعاون جاری رکھنے کی اہمیت پر بات چیت کی گئی۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس ٹیلی فونک رابطے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا کے ساتھ بااعتماد شراکت دار کے طور پر مخلصانہ کاوشیں جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ بقول ان کے، ہمیں توقع ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا سے افغان امن عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔

ترجمان دفترخارجہ کے مطابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ گہرے دو طرفہ اقتصادی تعاون، علاقائی روابط کے فروغ اور علاقائی امن کے حوالے سے دو طرفہ تعاون پر محیط، وسیع البنیاد اور طویل المدتی تعلقات کے لیے پُرعزم ہے۔ پاکستان امریکا کے ساتھ دو طرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور دو طرفہ اقتصادی تعاون کے فروغ کا خواہاں ہے۔

پاکستانی ترجمان کے مطابق دونوں عہدے داروں نے امریکی مالی تعاون سے وسط ایشیا سے براستہ افغانستان پاکستان کے لیے توانائی اور رابطے کے مختلف منصوبہ جات پر بھی گفتگو کی۔ بقول ترجمان، بات چیت میں اس بارے میں اتفاق کیا گیا کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے دونوں ممالک کے نکتہ نظر میں مماثلت ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام افغان قیادت اور علاقائی و عالمی متعلقین کی مشترکہ ذمہ داری ہے، تمام متعلقین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغان گروہوں پر جامع مذاکرات کے ذریعے، افغان مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے امریکا کی جانب سے فراہم کردہ معاونت پر، امریکی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے افغان امن عمل میں بامقصد پیش رفت کے حصول کے لیے، دو طرفہ روابط اور تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انخلا ذمہ دارانہ ہو تاکہ کوئی منفی قوت فائدہ نہ اٹھائے، شاہ محمود قریشی

اس سے قبل، جمعے کی صبح سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کے اجلاس میں مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ''آج پوری دنیا ہمارے مؤقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ یہی بات عرصہ دراز سے وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں۔''

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ''ہماری سوچ تھی کہ انخلا ذمہ دارانہ ہو تاکہ کوئی منفی قوت فائدہ نہ اٹھائے، انخلا اور افغان امن عمل کو ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہئے، جب کہ امریکا کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ ان مقاصد کو صدر بائیڈن نے بیان کیا ہے، اور کہا کہ ہمارا مقصد نائن الیون کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانا تھا جو مکمل ہوا''۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کا مقصد افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو اتنا کمزور کرنا تھا کہ وہ آئندہ کسی اور کو نشانہ نہ بنا سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں قومی تعمیر کیلئے نہیں گئے تھے افغانستان کا مسئلہ افغانوں کو مل بیٹھ کر حل کرنا ہے اور ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ انخلا کے بعد بھی وہ انسانی بنیادوں پر معاونت جاری رکھیں گے، وہ ڈپلومیٹک موجودگی رکھنا چاہتے ہیں، وہ کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کیلئے معاونت فراہم کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں، امریکہ نے زلمے خلیل زاد کو ہدایت کی ہے کہ وہ جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کیلئے روابط جاری رکھیں گے۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، ہم نے ستر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے''۔

ان کے الفاظ میں، ''اگر افغانستان کی صورتحال خراب ہوتی ہے اور حالات 90 کی دہائی کی طرف جاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا، مزید مہاجرین کے آنے کا خطرہ بھی موجود ہے، ہم بارڈر فینسنگ بھی کر رہے ہیں اور سرحد کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ ہم ایران ماڈل کو بھی زیر غور لا رہے ہیں۔ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں''۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ''افغانستان اپنے وسائل سے دفاع و سیکیورٹی نہیں سنبھال سکتا''۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ہندوستان افغان امن عمل کو خراب کر رہا ہے، افغانستان میں شورش بھارت کے مفاد میں ہے''۔

انھوں نے مزید الزام لگایا کہ ''بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام رہے۔ ہم اس حوالے سے امریکا، یورپ اور دیگر ممالک کو آگاہ کرچکے ہیں''۔

واضح رہے کہ بھارت ایسے تمام الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ وہ بھی افغانستان میں امن اور استحکام کا اتنا ہی خواہاں ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیرخارجہ کے ساتھ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے بھی شرکت کی۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا۔ پاکستان نے باڑ لگا کر بارڈر کراسنگ پر مؤثر نگرانی شروع کردی ہے۔

بقول معید یوسف، ''افغانیوں کے لئے آن لائن ویزہ سٹریم لائن کر دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، ملٹری، خفیہ ایجنسیاں مستعدی سے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان اس وقت افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ پہلا ہدف یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے کیمپ افغانستان کے اندر ہی ہوں اور وہیں پر عالمی ایجنسیاں اور ہم مدد کریں گے''۔

XS
SM
MD
LG