رسائی کے لنکس

حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کے طریقۂ کار سے متفق نہیں: بائیڈن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • بائیڈن کے مطابق وہ نیتن یاہو کی حماس کے خلاف جنگ کے حوالے سے نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کرتے۔
  • ایک انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل ممکن بنانے کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
  • ان کے بقول سعودی عرب، اردن سے لے کر مصر تک سب آگے بڑھنے اور خوراک غزہ لے جانے کے لیے تیار ہیں۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف جنگ سے متعلق طریقۂ کار سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ جو کر رہے ہیں وہ ایک غلطی ہے۔ انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل ممکن بنانے کے لیے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

ہسپانوی زبان کے ادارے یونی وژن نے صدر جو بائیڈن کا تین اپریل کو انٹرویو کیا تھا۔

یہ انٹرویو اسرائیلی حملے میں غزہ میں امدادی گروپ ورلڈ سینٹرل کچن کے عملے کے سات ارکان کی ہلاکت کے دو روز بعد کیا گیا تھا۔

جو بائیڈن نے انٹرویو میں مزید کہا کہ غزہ کے لوگوں کو خوراک اور طبی امداد فراہم نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے اور اب یہ کوشش کی جانی چاہیے۔

بائیڈن نے کہا کہ وہ اسرائیل سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی اور اگلے چھ سے آٹھ ہفتوں تک خوراک اور ادویات تک رسائی کی اجازت دے۔

امدادی ترسیل کے حوالے سے امریکی صدر نے کہا کہ میں نے سعودی عرب، اردن سے لے کر مصریوں تک سب سے بات کی ہے۔ وہ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ خوراک اندر لے جانے کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کے ساتھ فون پر بات چیت میں اسی طرح کی گفتگو کی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ غزہ میں انسانی صورتِ حال قابلِ قبول نہیں ہے۔

دوسری جانب واشنگٹن ڈی سی غزہ کی عسکری تنظیم حماس پر بھی زور دے رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرے جس کے بعد غزہ میں چھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ حماس کو امریکہ سمیت اس کے متعدد اتحادی ممالک دہشت گرد گروہ قرار دے چکے ہیں۔

اگر فریقین میں معاہدہ ہو جاتا ہے تو حماس کے تحویل میں موجود لگ بھگ سو یرغمالوں کی بازیابی اور اسرائیلی جیلوں سے فلسیطنی قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی کے مطابق 1200 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں عام شہری شامل تھے۔ اس حملے میں حماس نے لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا اور ان کو غزہ منتقل کر دیا تھا۔

حماس کے حملے کے فوری بعد اسی دن اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرکے بمباری شروع کر دی تھی جب کہ تین ہفتوں کے بعد اس نے غزہ میں زمینی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خاتمے یرغمالوں کی بازیابی کے لیے شروع کی گئی کارروائی میں نومبر 2023 کے آخر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوئی تھی جس میں 100 سے زائد یرغمالوں اور اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی تھی۔

غزہ میں گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل جنگ جاری ہے۔ اس دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی ترسیل میں مسلسل رکاوٹ کی وجہ سے اسے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔

دوسری جانب حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ چھ ماہ سے جاری جنگ میں 33 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

اسرائیل کی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے جنگ میں حماس کے 13 ہزار سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔ البتہ اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی جاتیں۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا مسلسل یہ اصرار رہا ہے کہ حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔

XS
SM
MD
LG