رسائی کے لنکس

شکوک و شبہات کے باوجودامدادی ادارے فلسطینی ہلاکتوں کی تعدادکو قابل اعتماد سمجھتے ہیں


 27 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی فضائی حملے کے بعد فلسطینی ایک زخمی شخص کو تباہ شدہ عمارت سے باہر لے جا رہے ہیں۔
27 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی فضائی حملے کے بعد فلسطینی ایک زخمی شخص کو تباہ شدہ عمارت سے باہر لے جا رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے غزہ میں فلسطینی حکام کی جانب سے فراہم کردہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے جب کہ بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والی ایجنسیاں ان اعدادو شمار کو وسیع پیمانے پر درست اور تاریخی اعتبار سے قابل اعتماد مانتی ہیں۔

اگرچہ اس بات پر کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کی جنوبی اسرائیل پر حملے اور دراندازی کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں بہت سے لوگ مارے گئے ہیں، بائیڈن نے بدھ کے روز کہا کہ انہیں "اس تعداد پر کوئی بھروسہ نہیں ہے جو فلسطینی بتا رہے ہیں"۔
تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیوں اس تعداد پر بھروسہ نہیں کر رہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ دی ہے کہ حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت نے 212 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کرتے ہوئے جواب دیا ہے جس میں تقریباً 7,000 فلسطینیوں کے نام اور شناختی نمبر درج ہیں جس کے مطابق یہ سب لوگ علاقے پر اسرائیلی بمباری میں مارے گئے تھے۔

غزہ میں کام کرنے والے کچھ گروپوں سمیت بین الاقوامی ادارے اور عالمی میڈیا بشمول رائٹرز ان اعداد و شمار کی تصدیق کرنے کے قابل نہیں ہیں لیکن وہاں کام کرنے والے رپورٹرز نے بڑی تعداد میں لاشیں دیکھی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کیا کہتا ہے؟

عالمی ادارہ صحت، ڈبلیو ایچ او، نے کہا ہے کہ غزہ میں اب تک 7,028 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ادارے کے مغربی کنارے اور غزہ کے لیے نمائندہ رچرڈ پیپرکورن نے بی بی سی کے مطابق بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کسی بھی تنازعے، ہنگامی صورت حال یا بیماری کے پھیلنے کےدوران اعداد و شمار فراہم کرنے کے لیے مقامی صحت کے حکام پر انحصار کرتا ہے۔

ان کے مطابق ڈبلیو ایچ او کو مرنے والوں کے 6,747 ناموں اور رجسٹریشن نمبروں کی فہرست موصول ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، 281 لاشوں کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔

نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ اور بھی بہت سے لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن ان کی گنتی نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔

حماس سے آنے والے اعداد و شمار کی صداقت کے بارے میں بار بار پوچھے جانے والے سوالوں پر ڈاکٹر پیپرکورن نے کہا کہ انہیں یہ بحث طنزیہ سی لگتی ہے ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر اموات 1,000 کم ہوں گی یا 1,000 زیادہ ہوں گی تو کیا اس سے خیالات تبدیل ہو جائیں گے۔

رچرڈ پیپرکورن نے واضح کیا کہ ان کے ادارے نے گزشتہ برسوں کے دوران غزہ کے حکام کے ساتھ پیدائش، اموات اور حفاظتی ٹیکوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے باقاعدگی سے کام کیا ہے اور یہ اعداد و شمار قابل اعتماد ثابت ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی اداروں کا اعتماد

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ حتمی ہلاکتوں کی تعداد اور حملوں کے بعد غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے اطلاع دی گئی تعداد میں معمولی فرق ہو سکتا ہے، لیکن وہ اس تعداد پر وسیع پیمانے پر اعتماد کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور، او سی ایچ اے، نے رائٹرز کو ایک بیان میں بتایا،"ہم اپنی رپورٹنگ میں ان کا ڈیٹا شامل کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ واضح طور پر ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے۔"

بیان میں او سی ایچ اے نے کہا، "اس وقت یہ تقریباً ناممکن ہے کہ یومیہ بنیادوں پر اقوام متحدہ کی کوئی تصدیق فراہم کی جائے۔"

غزہ پر زمینی حملہ خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے، حسن عسکری
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:26 0:00

جنیوا میں قائم عالمی ادارہ صحت کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے کہا کہ گزشتہ ہفتے دونوں فریقوں کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار ہر منٹ کی بنیاد پر بالکل درست نہیں ہو سکتے، لیکن وہ مجموعی طور پر دونوں اطرف ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی سطح کی عکاسی کرتے ہیں۔

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ عام طور پر ہلاکتوں کے اعداد و شمار قابل بھروسہ رہے ہیں اور اسے غزہ پر ماضی کے حملوں کی تصدیق میں کوئی بڑا تضاد نہیں ملا۔

ہیومن رائٹس واچ کےاسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا، یہ بات قابل غور ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے سامنے آنے والے اموات کے متوقع اعداد و شمار علاقے کے گنجان آباد ہونے اور بمباری کی شدت کو دیکھتے ہوئے عام طور پر مطابقت رکھتے نظر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تعداد زمینی شواہد،سیٹلائٹ کی تصویروں کے ذریعے اور دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق دکھائی دیتے ہیں۔

اعداد و شمار میں بڑے پیمانے پرہم آہنگی ہے

عالمی ادارہ صحت نے مرنے والوں کی تعداد کا حساب لگانے میں دشواریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایجنسی کو موصول ہونے والے ایک تخمینے کے مطابق غزہ میں اب بھی ایک ہزار نامعلوم لاشیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں اور یہ مرنے والوں کی تعداد میں ابھی تک شامل نہیں ہیں۔

رائٹرز کے مطابق اہلکار نے اس تخمینے کا ذریعہ نہیں بتایا۔

اگرچہ حماس کا غزہ پر کنٹرول ہے اور اس علاقے سے نکلنے والی معلومات پر سخت کنٹرول ہے، لیکن وزارت صحت کی رسمی ذمہ داری اب بھی مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے۔

فلسطینی اتھارٹی پر حماس کی حریف تنظیم فتح کا غلبہ ہے۔ یہ تنظیم غزہ کے ہسپتالوں کو تنخواہوں کی ادائیگی اور سامان فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

غزہ کا الشفا اسپتال: ’بجلی گئی تو سب بچے مر جائیں گے‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:26 0:00

رملہ میں ایک ترجمان نے کہا کہ یہ تنظیم ہسپتالوں، ایمبولینسوں اور ہنگامی خدمات سے موصول ہونے والی تعداد کی بنیاد پر ہلال احمر کے ساتھ مل کر ہلاکتوں کی تعداد بتاتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ متاثرین کی ابتدائی طور پر عمر، جنس اور زخموں کی نوعیت سے شناخت کی جاتی ہے اور بعد میں مکمل شناخت کی تصدیق کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار ابتدائی طور پر غزہ میں رپورٹ کیے جاتے ہیں، اور ان کی جانچ پڑتال کے بعد رملہ میں اپ ڈیٹ کیے جاتے ہیں، لیکن تضادات عام طور پر کم ہوتے ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل نے اپنی تخمینہ شدہ ہلاکتوں کی تعداد فراہم نہیں کی ہے۔

سال 2014

سال 2014میں اسرائیل اور حماس کے درمیان آخری بڑے تنازعے کے بعد سے فلسطینی حکام کی ہلاکتوں کی اطلاع دینے کے انداز میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے، جب مختلف اداروں کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار بہت مختلف نہیں تھے۔

تین نومبر 2015 کو اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں، فلسطینی وزارت صحت نے کہا تھا کہ غزہ میں جولائی تا اگست 2014 کے تنازعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2,322 تھی۔

اقوام متحدہ کے زیرانتظام ایک تحقیقاتی کمیشن نے بتایا کہ 2,251 فلسطینی مارے گئے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل نے حماس کو غزہ میں ہونے والی زیادہ تر ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا، تاہم اسرائیلی وزارت خارجہ نے تنازع کے بعد ایک رپورٹ میں کہا کہ اسرائیلی فوج کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں 2,125 فلسطینی مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی تھنک ٹینک "یروشلم سینٹر فار پبلک افیئرز "نے کہا کہ 2,100 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے، جب کہ انسانی حقوق کے ایک گروپ نے فلسطینی اموات کی تعداد 2,202 بتائی تھی۔

اسرائیلی تشویش

اسرائیل حماس کے سرحد پار حملوں کے بعد سے غزہ پر حملے کر رہا ہے۔ تل ابیب کے مطابق حماس کے جنوبی اسرائیل میں حملے میں 1400 افراد مارے گئے ہیں۔

امریکہ کے صدر بائیڈن نے بد ھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ وہ فلسطینیوں کی طرف سے فراہم کردہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار پر اعتماد کیوں نہیں کرتے۔

ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے اس ہفتے کو کہا کہ غزہ کی وزارت صحت "شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے" اور "ماضی میں اسے جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔"

انہوں نے اس سلسلے میں 17 اکتوبر کو غزہ میں الاہلی ہسپتال پر ہونے والے حملے کا حوالہ دیا۔ خیال رہے کہ دوںوں فریق اس حملے کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔

اسرائیل فوجی ترجمان نے کہا کہ غزہ کی وزارت صحت نے ابتدائی طور پر ہسپتال دھماکے میں 500 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی تھی لیکن بعد میں ان کی تعداد 471 بتائی گئی۔

ایک علیحدہ میڈیا بریفنگ میں، ایک اور ترجمان نے اسرائیل کی طرف سے جانی نقصان کا کوئی تخمینہ نہیں بتایا۔

رائٹرز نے ایک منظر عام پر نہ لائی گئی امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہسپتال کے حملے میں مرنے والوں کی تعداد شاید 100 سے 300 تک تھی۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا ہے کہ یہ تعداد "کئی درجن" معلوم ہوتی ہے۔

فلسطینی حکام کا کہنا تھا کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا حساب لگانا مشکل تھا کیونکہ کچھ ہلاک شدگان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

(اس خبر میں شامل زیادہ تر مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG