رسائی کے لنکس

امریکہ، یورپی یونین اور جی سیون روس سےمعمول کی تجارت بھی بند کر دیں گے، بائیڈن


صدر بائیڈن
صدر بائیڈن

امریکی صدر جوبائیڈن نے جمعہ کو اعلان کیا کہ امریکہ، یورپی یونین اور سات ممالک کا گروپ جی سیون یوکرین پرحملے کےردعمل میں روس کے ساتھ معمول کے تعلقات بھی معطل کردیں گے۔

روس کے لیے " سب سے زیادہ پسندیدہ قوم" کی تجارتی حیثیت کو منسوخ کرنے سےامریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بہت سی روسی اشیا پر محصولات میں اضافے کا موقع ملے گا ، جس سے روس کی معیشت مزید کمزور ہو گی، جس کے بارے میں پہلے ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پیشن گوئی کی ہے کہ روس سال رواں میں گہری کساد بازاری کا شکار ہوجائے گی۔

بائیڈن نے وائٹ ہاوس میں اس بات کا اعلان کرتے ہوئےکہا کہ " روس کے لیے امریکہ کے ساتھ کاروبار کرنااور عالمی معیشت کا نصف حصہ بنانے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہوجائے گا"۔

انھوں نے کہا کہ یہ روسی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہوگا، جو پہلے ہی ہماری پابندیوں سے بری طرح متاثر ہے۔

امریکہ اور دیگر اتحادیوں نے اس سے پہلے دباو ڈالنے کے لیے اس کی برآمدات اور بینکنگ پر پابندیاں عائد کردی تھیں، تاکہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین کے خلاف اپنی جنگ ختم کرنے کا اعلان کریں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یور پ کی سب سے بڑی جنگ ہے۔

اس سے قبل جمعہ کو یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنکسی نے ایک نشریاتی ویڈیو میں کہا تھا کہ ان کی فوج ایک اسٹرٹیجک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ " یہ کہنا ممکن نہیں کہ ہمیں اپنی زمین کو آزاد کرانے میں کتنے دن لگیں گے لیکن یہ کہنا ممکن ہے کہ ہم اسے آزاد کرائیں گے کیونکہ ہم ایک اسٹرٹیجک موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔

نائب امریکی صدر کملا ہیرس نے رومانیہ کےحالیہ دورے میں کہا تھا کہ پوٹن تنازع کے سفارتی حل کے لیے کوئی آمادگی ظاہر نہیں کررہے، جبکہ پوٹن نے جمعہ کو ہیرس کے دعوے کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین کے ساتھ بات چیت میں مثبت پیش رفت ہوئی اور یہ کہ مذاکرات " اب تقریباً روز انہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔

جمعرات کو امریکی حکام نےکہا کہ روس یوکرین کی آبادی کے مراکز کو تباہ کرنے کی حکمت عملی پر کارفرما ہے کیونکہ متحارب فریقوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ " ہم نے شہریوں پرجان بوجھ کر کیے جانے والےحملوں کی بہت قابل بھروسہ رپورٹیں دیکھی ہیں، جو جنیوا کنونشن کے تحت جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ تاہم، انھوں نےروس پر ایسے جرائم کا خاص طور پر الزام عائد نہیں کیا۔

پرائس نے کہا کہ روسی صدر پوٹن کا یوکرین پر فوری قبضہ کرنے کا منصوبہ ناکا م ہوگیا ہے۔ لہذا، وہ ایسی حکمت عملی اختیار کررہے ہیں کہ آبادی کے مراکز کو نشانہ بنا کریوکرین کی عوام کے عزائم کو توڑ سکیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔

روس نے یوکرین پر حملے میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔

جنگی جرائم کے الزامات

امریکی نائب صدر ہیرس نے اس ہفتے کے آغاز میں پولینڈ میں کہا تھا کہ وہ یوکرین پر روس کے حملے کے بارے میں اقوام متحدہ کی تحقیقات کی حمایت کرتی ہیں جس میں حقوق کی تمام مبینہ خلاف ورزیوں اورجرائم کا جائزہ لیا جائےگا۔ وارسا میں ایک اجلاس سے پہلے بات کرتے ہوئے ہیرس نے کہا تھا کہ " بالکل تحقیقات ہونی چاہیے''۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ مجھے زیادہ امید نہیں کہ ہم روس اور ولادیمیر کو جوابدہ ٹھہراسکیں۔

انھوں نے کہا کہ دو ادارے ایسے ہیں جو جنگی جرائم پر مقدمہ چلاتے ہیں، ایک بین الااقوامی عدالت انصاف اور دوسرے بین الااقوامی فوجداری عدالت ، دونوں ہی کیا کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے ان کی ایک حد ہے۔

جنگی جرائم کے مقدمات اکثر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعہ بین الااقوامی عدالت میں بھیجی جاتے ہیں لیکن کونسل کے مستقل رکن کے طور پر روس اس طرح کے ریفرل کو ویٹو کرسکتا ہے۔دوسری بات یہ کہ روس، یوکرین اورامریکہ نے اس قانون پر دستخط ہی نہیں کیے جس کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت قائم ہوئی ہے۔ یوکرین اس کے دائرہ اختیار کو قبول کرتاہے، لیکن اس کا کہناہے کہ بین الاقوامی عدالتوں کی اپنی پولیس فورس نہیں ہے اور وہ ریاستوں سے تعاون طلب کرتے ہیں جو انھیں ہمیشہ نہیں ملتا۔

سلامتی کونسل کا اجلاس

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس جمعہ کو منعقد ہوگا جس میں روس کی اس تشویش پر بات چیت ہوگی کہ یوکرین کیمیاوی ہتھیارتیار کررہا ہے۔ یہ اجلاس روس کی درخواست پر طلب کیا گیا ہے ۔

شام پر سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران روس کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری پر سوال اٹھا گیاتھا۔ روس نے امریکہ پر بھی الزام لگایا ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے یوکرین کو فنڈ فراہم کررہا ہے۔ امریکہ اور یوکرین نے اس کی تردید کی ہے۔

(خبر کا کچھ مواد اے پی، رائیٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG