بلوچستان میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی - باپ) کی حکومت کے قیام کے امکانات مزید واضح ہوگئے ہیں۔
پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان میں کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی اور صوبائی اسمبلی میں تین جماعتیں بڑے پارلیمانی گروپ کی صورت میں سامنے آئی تھیں۔
اس وقت صوبائی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی تعداد تین آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد 19 ہوگئی ہے۔ دوسرے نمبر پر متحدہ مجلس عمل ہے جس کے نو ارکان ہیں جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سات ارکان کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے۔
پارٹی پوزیشن واضح ہونے کے بعد سے صوبے میں حکومت سازی کی کوششیں تیز تیزی اختیار کرگئی ہیں اور قوی امکان ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی صوبے میں مخلوط حکومت بنائے گی۔
'باپ' کے صدر جام کمال خان نے منگل کو اسلام آباد میں متوقع وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے دیگر رہنماﺅں سے ملاقات کی تھی اور پی ٹی ائی کی وفاق میں حکومت کے لیے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا تھا۔
جواب میں پی ٹی آئی نے 'بی اے پی' کو صوبے میں حکومت کے قیام میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پانچ ارکان ہیں جن کی حمایت ملنے کے بعد 'بی اے پی' صوبے میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
'بی اے پی' کے صدر جام کمال کو اس سے قبل بلوچستان اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے تین، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو، دو ارکان اپنا متفقہ پارلیمانی لیڈر قرار دے چکے ہیں۔
اس طرح جام کمال خان کو اب تک 64 رکنی موجودہ ایوان میں 31 ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین اور اقلیتی ارکانِ اسمبلی کے ساتھ یہ تعداد تقریباً 40 تک پہنچ جائے گی جب کہ صوبے میں حکومت کے قیام کے لیے 33 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی 65 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے لیکن صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ پی بی 35 پر اُمیدوار سراج رئیسانی کی ایک خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد وہاں انتخابات ملتوی کردیے گئے تھے۔
دریں اثنا بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) بھی صوبے میں حکومت کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔ اس پارٹی کے قائد سردار اختر مینگل بدھ کو کوئٹہ سے اسلام آباد روانہ ہوئے تھے جہاں اطلاعات ہیں کہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اور دیگر رہنماﺅں سے ملاقاتیں کریں گے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق سردار اخترمینگل جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر سیاسی قائدین سے بھی ملاقات کریں گے اور اُن سے بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کے لیے متحدہ مجلس عمل سے تعاون کی درخواست کریں گے۔
بی این پی کا مؤقف ہے کہ پارٹی کے اپنے سات، ایم ایم اے کے نو، پی ٹی آئی کے پانچ، اے این پی کے تین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے دو، دو اور تین آزاد اور خواتین و اقلیتی ارکان کے حلف اُٹھانے کے بعد اُنہیں سادہ اکثر یت حاصل ہو جائے گی۔
اُدھر متحدہ مجلسِ عمل صوبے میں ایک ایسی مخلوط حکومت کے قیام کے لیے کوششیں کر رہی ہے جس میں اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتیں شامل ہوں۔
تجزیہ نگار امان اللہ شادیزئی کا کہنا ہے کہ مجلسِ عمل اور بی این پی (مینگل)، دونوں جماعتوں کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی بی اے پی کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے اور وفاقی حکومت کی مدد اور تعاون کے بغیر صوبے میں کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔