رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے الزام میں گرفتار چار بلوچ خواتین رہا


بلوچ خواتین کی دہشت گردی میں مدد کے الزام میں گرفتاری کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج کیا گیا۔
بلوچ خواتین کی دہشت گردی میں مدد کے الزام میں گرفتاری کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج کیا گیا۔

بلوچستان کے ضلع آواران میں سرکاری اداروں نے 29 نومبر کو جن چار بلوچ خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا، انہیں پیر کی شام رہا کر دیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ذرائع نے زیر حراست خواتین کی اپنے گھروں میں پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔

بی این پی مرکزی رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے رکن ثناء بلوچ نے خواتین کی رہائی کی تصدیق کر تے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ آج اُنہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ انہیں خضدار میں رکھا گیا تھا۔ خضدار سے رہائی کے بعد انہیں آواران میں اپنے گھروں میں پہنچا دیا گیا ہے۔

29 نومبر کو بلوچ خواتین کی گرفتاری کے بعد سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں پر مشتمل انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر کے ساتھ ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ضلع آوارن کے مقامی افراد کی شکایات اور نشاندہی پر خواتین پولیس اور لیویز کے دستے نے سی ٹی ڈی اسکواڈ کے ہمراہ کاروائی کر کے چند خواتین کو گرفتار کیا۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے خواتین کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کی جانے والی تصویر
سی ٹی ڈی کی جانب سے خواتین کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کی جانے والی تصویر

بیان کے مطابق حراست میں لی جانے والی خواتین کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن ارمی، بی ایل اے، اور بلوچستان لبریشن فرنٹ، بی ایل ایف وغیرہ کے لئے سہولت کار کے طور پر بھی کام کرتی رہی ہیں۔

بیان میں ان خواتین سے اسلحہ اور بارودی مواد برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔

پاکستان تحر یک انصاف کی وفاقی حکومت کی حمایت کرنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ان خواتین کی گرفتار ی کا مسئلہ قومی اسمبلی میں اٹھاتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر زیر حراست خواتین کو رہا نہ کیا گیا تو وہ حکومت کی حمایت ترک کر دیں گے۔

سردار اختر مینگل نے اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے چیمبر میں وفاقی وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ سے ملاقات بھی تھی اور بلوچستان میں اُن کی پارٹی کے کارکنوں نے کئی علاقوں میں احتجاج بھی کیا تھا۔

سی ٹی ڈی کے بیان کے ساتھ جاری کی جانے والی تصویر میں سیاہ یونیفام میں ملبوس دو خواتین اہل کار، چار بلوچی خواتین کے ساتھ کھڑی تھیں اور اُن کے سامنے اسلحہ، بارودی مواد اور دستی بم میز پر رکھے گئے ہیں۔

بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو دہشت گردوں کی مدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد اُن کی تصویر بھی جاری کی گئی، جس پر صوبے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کی تھی۔

XS
SM
MD
LG