پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں جمعرات کو تشدد کے دو مختلف واقعات میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور عام شہریوں سمیت 18 افراد زخمی ہو گئے۔
حکام کے مطابق تربت کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کا قافلہ گزر رہا تھا کہ اس پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ شروع کر دی۔
فائرنگ سے دو اہلکار موقع پر ہی ہلاک جب کہ چھ زخمی ہوئے۔ اہلکاروں نے جوابی کے دوران دو حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا جب کہ ان کے دیگر ساتھی جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
تاحال اس واقعے میں ملوث افراد کے بارے میں مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں اور نہ ہی کسی فرد یا گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
جمعرات ہی کو افغان سرحد سے ملحقہ شہر چمن میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں ایک پولیس اہلکار اور ایک خاتون سمیت کم ازکم 12 افراد زخمی ہو گئے۔
قلعہ عبداللہ کے ضلعی پولیس افسر اسد ناصر نے وائس آف امریکہ کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مال روڈ پر ایک بم ایک موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔
"دو تین گاڑیاں تھیں جس میں میرے اسکواڈ کی بھی گاڑی تھی اس میں جوان بیٹھے تھے تو جیسے ہی یہ وہاں روڈ پر پہنچی تو وہاں موٹر سائیکل میں نصب بم دھماکے سے پھٹ گیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے لیے تقریباً دو کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا جس میں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکا کیا گیا۔
بلوچستان میں حالیہ ہفتوں میں تشدد کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس میں سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں کے حملے بھی شامل ہیں۔
صوبے کے اختیارات میں خود مختاری اور وسائل میں زیادہ حصے کے لیے یہاں کئی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں جو سرکاری املاک، تنصیبات اور اہلکاروں پر جان لیوا حملے کرتی آئی ہیں۔