اسلام آباد —
بلوچستان کے علاقے خضدار کے ڈپٹی کمشنر نے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ کے اواخر میں ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کی جینیاتی نمونوں (ڈی این اے) کے ذریعے شناخت کے لیے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جن کی رپوٹ جمعرات تک متوقع ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے دو قبروں سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے حکام کو طلب کر رکھا تھا۔
منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی جس کے روبرو ڈپٹی کمشنر خضدار وحید شاہ نے بتایا کہ 15 لاشوں میں سے دو کی شناخت قادر بخش اور نصیر احمد کے نام سے ہوئی جنہیں قانونی کارروائی کے بعد آواران میں ان کے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اسد الرحمن گیلانی نے بینچ کو بتایا کہ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بھی قائم کر دیا گیا ہے جو ایک ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا جب کہ ان ہلاکتوں کی وجوہات جاننے کے لیے ایک اسپیشل میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیا جاچکا ہے۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے اس مقدمے کی سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں خضدار کے علاقے توتک سے حکام نے ایک مقامی چرواہے کی اطلاع پر دو قبروں سے 15 لاشیں برآمد کی تھیں جو بری طرح سے مسخ ہو چکی تھیں۔
اس واقعے کے منظرعام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور صوبے سے جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے رشتے داروں کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لاشوں اور ان افراد کے قاتلوں کی شناخت کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
انسانی حقوق کی بعض مقامی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ لاشوں کی تعداد 25 سے بھی زائد ہے۔
صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ حالیہ برسوں میں خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے اور اکثر واقعات میں لواحقین ان کا الزام سکیورٹی فورسز خصوصاً فرنٹیئر کور پر عائد کرتے ہیں تاہم فرنٹیئر کور کے حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
دریں اثناء پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں ایک خاتون سے اجتماعی جنسی زیادتی کا حکم دینے والی پنچائت کے معاملے پر بھی منگل کو عدالت عظمیٰ میں از خود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پنجاب پولیس کے سربراہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا لیکن منگل کو کوٹ ادو کے ایک پولیس عہدیدار بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔
عدالت عظمیٰ نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دس روز کے لیے سماعت ملتوی کردی اور انسپکٹر جنرل پولیس کو آئندہ سماعت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
مظفر گڑھ کے علاقے موضع ٹبہ شرقی میں گزشتہ ماہ ایک پنچائت نے 45 سالہ بیوہ خاتون کو اس بنا پر اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا حکم دیا تھا کہ اس کا بھائی ایک دوسرے خاندان کی لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی تعلقات میں ملوث تھا۔
تاہم پولیس حکام کے مطابق خاتون کی آبروریزی نہیں ہوئی اور پنچائت کے فیصلے میں شامل کم ازکم سات افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے دو قبروں سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے حکام کو طلب کر رکھا تھا۔
منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی جس کے روبرو ڈپٹی کمشنر خضدار وحید شاہ نے بتایا کہ 15 لاشوں میں سے دو کی شناخت قادر بخش اور نصیر احمد کے نام سے ہوئی جنہیں قانونی کارروائی کے بعد آواران میں ان کے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اسد الرحمن گیلانی نے بینچ کو بتایا کہ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بھی قائم کر دیا گیا ہے جو ایک ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا جب کہ ان ہلاکتوں کی وجوہات جاننے کے لیے ایک اسپیشل میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیا جاچکا ہے۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے اس مقدمے کی سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں خضدار کے علاقے توتک سے حکام نے ایک مقامی چرواہے کی اطلاع پر دو قبروں سے 15 لاشیں برآمد کی تھیں جو بری طرح سے مسخ ہو چکی تھیں۔
اس واقعے کے منظرعام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور صوبے سے جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے رشتے داروں کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لاشوں اور ان افراد کے قاتلوں کی شناخت کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
انسانی حقوق کی بعض مقامی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ لاشوں کی تعداد 25 سے بھی زائد ہے۔
صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ حالیہ برسوں میں خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے اور اکثر واقعات میں لواحقین ان کا الزام سکیورٹی فورسز خصوصاً فرنٹیئر کور پر عائد کرتے ہیں تاہم فرنٹیئر کور کے حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
دریں اثناء پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں ایک خاتون سے اجتماعی جنسی زیادتی کا حکم دینے والی پنچائت کے معاملے پر بھی منگل کو عدالت عظمیٰ میں از خود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پنجاب پولیس کے سربراہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا لیکن منگل کو کوٹ ادو کے ایک پولیس عہدیدار بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔
عدالت عظمیٰ نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دس روز کے لیے سماعت ملتوی کردی اور انسپکٹر جنرل پولیس کو آئندہ سماعت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
مظفر گڑھ کے علاقے موضع ٹبہ شرقی میں گزشتہ ماہ ایک پنچائت نے 45 سالہ بیوہ خاتون کو اس بنا پر اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا حکم دیا تھا کہ اس کا بھائی ایک دوسرے خاندان کی لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی تعلقات میں ملوث تھا۔
تاہم پولیس حکام کے مطابق خاتون کی آبروریزی نہیں ہوئی اور پنچائت کے فیصلے میں شامل کم ازکم سات افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔