رسائی کے لنکس

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ؛ وہ رہنما جو ساری زندگی سرداری نظام کے خلاف سرگرم رہے


ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ 25 فروری کو بہاولپور سے لاہور آتے ہوئے ٹریفک حادثے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ 25 فروری کو بہاولپور سے لاہور آتے ہوئے ٹریفک حادثے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔

"پاکستان کے صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں میں تعلق اور اتحاد آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ملک میں حقیقی جمہوریت کا احیا ہوگا بلکہ صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی روکا بھی جاسکے گا۔”

بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے بانی رکن ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے ان خیالات کا اظہار 24 فروری کو حیدر آباد میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے جلسے میں کیا تھا۔

جلسے سے واپسی پر لاہور جاتے ہوئے جمعے کو عبدالحئی بلوچ بہاولپور کے قریب پیش آنے والے ٹریفک حادثے میں جان کی بازی ہار گئے۔ ان کی عمر 76 برس تھی۔

کراچی اور کوئٹہ کی سڑکوں پر پیدل گھومتے پھرتے نظر آتے عبدالحئی بلوچ کی ساری زندگی بلوچستان سمیت پاکستان بھر کے مظلوم طبقے کے حقوق اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے گزری۔

وہ یکم فروری 1946 میں بلوچستان کے ضلع کچھی میں پیدا ہوئے۔

طلبہ سیاست

عبدالحئی بلوچ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور ایم بی بی ایس کی ڈگری کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ البتہ طب کا پیشہ اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے عوامی سیاست کو ترجیح دی۔

بلوچستان کے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عبدالحئی بلوچ نے طلبہ سیاست سے آغاز کیا۔ اُن کا شمار بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے بانیوں میں ہوتا تھا۔

وہ پاکستان کے تمام صوبوں سے ترقی پسند بائیں بازو کے طلبہ اتحاد پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس (پی ایف یو ایس) کے مرکزی رہنما بھی رہے ۔


عملی سیاست

شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ عبدالحئی بلوچ طلبہ سیاست کے بعد ترقی پسند رجحانات کی حامل نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) میں شامل ہوئے اور پختون اور بلوچ سیاسی رہنماؤں ولی خان ، میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطا الله مینگل اور میر گل خان نصیر کے سیاسی ہمسفر بنے۔

انہوں نے جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جس کی پاداش میں انہیں چھ ماہ جیل میں رکھا گیا۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق، “1970 کے عام انتخابات میں انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) کے پلیٹ فارم پر بلوچستان کے علاقے قلات کی قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا اور خطے کے سابق حکمران خاندان خان آف قلات کے قریبی عزیز پرنس محی الدین کو شکست دی جو 11 سال تک وفاقی وزیر رہے تھے۔”

عبدالحئی بلوچ اس وقت کی قومی اسمبلی کے ان ارکان میں سے تھے جنہوں نے 1973 کے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔

اُن کو یہ اعتراض تھا کہ اس آئین میں پاکستان میں آباد قوموں کی تاریخ، ثقافت، زبان اور شناخت برقرار رکھنے کی ضمانت نہیں دی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات کے باعث انہیں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا لیکن یہ گرفتاری 18 ماہ کے طویل عرصے پر محیط رہی اور انہیں جیل میں صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔


بی این ایم کی تشکیل

نیپ پر پاپندی اور ٹوٹ پھوٹ کے بعد عبدالحئی بلوچ نے عبدالمالک بلوچ (سابق وزیراعلی بلوچستان) اور دیگر بی ایس او کے سابق ساتھیوں کے ہمراہ 1987 میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ نامی تنظیم تشکیل دی۔

بعدازاں یہ تنظیم سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم) میں تبدیل ہو گئی اور عبدالحئی بلوچ اس کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے۔

اس جماعت نے سرداری نظام کی مخالفت کے باوجود 1988 کے انتخابات میں نواب اکبر بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل کے تشکیل کردہ اتحاد بلوچستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم تلے انتخابات میں حصہ لیا اور کچھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

بی این ایم سے وابستہ سیاسی کارکن شفیع بلوچ کا کہنا ہے کہ بی این ایم کی تشکیل کا بنیادی مقصد بلوچستان کی سیاست میں سرداروں کے اثرونفوذ کو ختم کرنا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہ جماعت بلوچستان کے مکران ریجن میں کافی فعال رہی جہاں روایتی طور پر سرداری نظام نہ ہونے کے برابر تھا۔

کراچی میں مقیم شفیع بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان کی سیاست میں اینٹی سردار سیاست کو متعارف کرانے والے ہی عبدالحئی بلوچ تھے۔

ان کے بقول “ان جیسا منفرد کردار ادا کرنے والا شاید کوئی اور سیاسی رہنما پیدا نہیں ہوگا بلوچستان میں وہ واحد شخص تھے جو نوابوں اور سرداروں کو کھٹکتے تھے ۔"

نیشنل پارٹی سے اختلافات

جب 2003 میں میر حاصل بزنجو کی بلوچستان نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ انضمام کے بعد نیشنل پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت تشکیل پائی تو عبدالحئی بلوچ کو مرکزی صدر منتخب کیا گیا اور اسی پارٹی کے ٹکٹ پر وہ سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔

البتہ 2013 میں نیشنل پارٹی کی قیادت سے اختلافات پر عبدالحئی بلوچ ناراض ہوئے اور انہوں نے جولائی 2017 میں بی این ایم کو دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کیا۔ البتہ ایک سال کے کم ہی عرصے میں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دی۔

عوامی رہنما

عبدالحئی بلوچ پاکستان کے واحد سیاستدان تھے جو بیک وقت بلوچستان میں سیاسی جلسوں سے چھ زبانوں اردو، بلوچی ، پشتو، براہوی ،سندھی اور سرائیکی میں خطاب کرتے تھے۔ وہ اپنے پرجوش خطاب سے جلسوں کو گرما دینے پر قدرت رکھتے تھے ۔

ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے غریب سائلین اور متاثرین کے ہمراہ طویل فاصلے تک بھی پیدل ، سائیکل اور موٹر سائیکل پر بھی چل پڑتے تھے ۔

XS
SM
MD
LG