امریکی محکمہٴ خارجہ نے بحرین کی جانب سے پیر کو لیے گئے فیصلے پر اظہار تشویش کیا ہے جس میں ایک سرکردہ شیعہ عالم دین کی شہریت منسوخ کی گئی ہے، جس اقدام کے نتیجے میں نئے احتجاج اور کشیدگی کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔
ایک بیان میں محکمہٴ خارجہ کے ترجمان جان کِربی نے کہا ہے کہ ’’ہمیں حکومتِ بحرین کے فیصلے پر تشویش ہے، جِس میں معروف شیعہ عالم دین، شیخ عیسیٰ قاسم کی شہریت واپس لی گئی ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی تشویش اِن اطلاعات کے بعد ’’مزید نمایاں‘‘ ہوئی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ قاسم کو اِن الزامات پر رد عمل ظاہر کرنے اور اِس فیصلے کو کھلے قانونی عمل کے ذریعے چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
بحرین کی وزارتِ داخلہ نے ملک کی شیعہ برادری کے روحانی رہنما کو انتہاپسند فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کا کلیدی ذمہ دار قرار دیا ہے۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، ’بی این اے‘ کی ایک اطلاع کے مطابق، وزارت نے اِن عالم دین پر ’’بیرونی عزائم کے فروغ۔۔۔ فرقہ وارنہ مفادات کو پروان چڑھانے اور تشدد کو فروغ دینے‘‘ کے حوالے سے اپنے منسب کے غلط استعمال‘‘ کا الزام لگایا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا ہے کہ قاسم کی شہریت منسوخ کیے جانے کا بحرین کا فیصلہ سنہ 2011کے بعد حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کے بعد ’’بحرین کا سیاہ ترین‘‘ فیصلہ ہے۔ سنہ 2011ء میں ملک کی سلامتی افواج نے احتجاجی مظاہروں کو کچل دیا تھا، جو آئینی بادشاہت رائج کرنے اور ایک منتخب وزیر اعظم کا مطالبہ کر رہے تھے۔
عالم دین کے خلاف کارروائی کی بحرین کی سنی قیادت والا اتحاد حمایت جب کہ شیعہ اس کی مذمت کررہے تھے۔
قاسم اُن بیسیوں شیعہ حضرات میں شامل ہیں جن کی شہریت بحرینی حکام نے منسوخ کی ہے، جب اُن کے خلاف شدت پسندی سے متعلق مقدمات کا فیصلہ سامنے آیا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی نے کہا ہے کہ غیر وفاداری کے مبینہ الزام کے تحت، حالیہ برسوں کے دوران کم از کم 250 افراد کے خلاف بحرین کی شہریت منسوخ کی گئی ہے۔