|
وائٹ ہاؤس نے جمعے کے روز کہا ہے کہ امریکہ نے ’’ کچھ ایسی ابتدائی علامات دیکھی ہیں جن سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس ہفتے قازقستان میں گر کر تباہ ہونے والا آذربائیجان ایئرلائنز کا طیارہ ممکنہ طور پر روسی فضائی دفاعی نظام کے ذریعے گرایا گیا تھا۔‘‘
یہ بات وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکیورٹی کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔ انہوں نے ایک جاری تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے مزید وضاحت کرنے سے انکار کر دیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ کے پاس ایسی انٹیلی جینس معلومات ہیں جن سے اس نتیجے تک پہنچنے میں مدد ملی یا وہ محض ماہرین کی جانب سے فراہم کردہ حادثے کے بصری اندازوں پر مبنی قیاس آرائی پر انحصار کر رہا ہے ،تو کربی نے مختصر جواب ، ’ہاں ‘ کہا اور مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ وہ اسے اسی مقام پر چھوڑتے ہیں۔
اس سے قبل آذر بائیجان کے ایک وزیر نے بھی تجزیوں اور زندہ بچ جانے والوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ طیارے کو کسی ہتھیار نے نشانہ بنایا تھا۔
آذر بائیجان کے ڈیجیٹل ڈویلپمنٹ اور ٹرانسپورٹیشن کے وزیر رشاد نبییف نے میڈیا کو بتایا کہ، ’’ ماہرین کے ابتدائی نتائج بیرونی اثر کی جانب اشارہ کرتے ہیں جیسا کہ عینی شاہدین کی گواہی کرتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی قسم کا تعین چھان بین کے دوران ہو گا۔
جمعے کے روز روسی وزیر رشاد نبییف اور وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کے بیانات نے روس پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
روس کے وزیر رشاد نبییف اور وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکیورٹی کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربی کے بیانات ہوابازی کے ان ماہرین کے بیانات کی باز گشت ہیں جنہوں نے حادثے کا الزام یوکرین کے ایک حملے کے رد عمل میں روسی فضائی دفاعی نظام کو دیا تھا۔
ان بیانات نے روس پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے، جہاں عہدے داروں نے کہا ہے کہ آذر بائیجان کا طیارہ جس علاقے کی جانب لینڈنگ کے لیے بڑھ رہا تھا ، وہاں ایک ڈرون حملہ جاری تھا۔ انہوں نے فضائی دفاعی نظاموں کو مورد الزام ٹھہرانے والے بیانات پر کوئی بات نہیں کی۔
حادثے میں زندہ بچ جانے والے مسافروں اور عملے کے ارکان نے آذر بائیجان کے میڈیا کو بتایا کہ جب طیارہ گروزنی پر چکر کاٹ رہا تھا تو انہوں نے طیارے پر بلند شور سنا تھا۔
فلائٹ اٹینڈینٹ ایدان رحیمی نے بتایا کہ ایک شور کے بعد آکسیجن ماسک خود بخود ریلیز ہو گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک رفیق کار ذوالفقار اسدوف کو فرسٹ ایڈ دینے گئیں اور پھر ان سب نے ایک اور بینگ کی آواز سنی۔
حادثے کا شکار ہونے والے آذربائیجانی ائیر لائنز کے طیارے کے زندہ بچ جانے والے ایک فلائٹ اٹینڈینٹ ذوالفقار اسدوف نے کہا کہ وہ شور ایسا لگ رہا تھا جیسے طیارے کو باہر سے کوئی چیز نشانہ بنارہی ہو۔
زندہ بچ جانے والے دو دوسرے افراد نے بھی بتایا کہ انہوں نے طیارے کے گرنے سے قبل دھماکوں کی آوازیں سنی تھیں۔
جیرووا صالحات نے اسپتال میں آذر بائیجان ٹیلی وژن کو ایک انٹر ویو میں بتایا کہ ان کی ٹانگ کے قریب کوئی چیز دھماکے سے پھٹی ، اور وفا شبانووا نے بتایا کہ آسمان پر دو دھماکے ہوئے ، اور ڈیڑھ گھنٹے کے بعد طیارہ کریش ہو کر زمین پر گر گیا۔
روس کی ایوی ایشن اتھارٹی کے سر براہ دیمتری یدروف نے جمعے کو کہا کہ جب طیارہ گہری دھند میں گروزنی میں لینڈنگ کی تیاری کر رہا تھا ، یوکرینی ڈرونز شہر کو نشانہ بنا رہے تھے، جس کے نتیجے میں حکام کو وہ علاقہ ائیر ٹریفک کے لیے بند کرنا پڑا
یدروف نے کہا کہ کیپٹن کی جانب سے طیارے کو اتارنے کی دو ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے دوسرے ائیر پورٹس کی پیش کش کی لیکن اسنے کیسپین سمندر کے پار قازقستان میں اقتاؤ جانے کا فیصلہ کیا۔
کریملین کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے حادثے کی وجوہات سے متعلق دووں پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وجہ کا تعین تفتیش کار کریں گے۔
انہوں نے ایوی ایشن کے کچھ ماہرین کے ان بیانات پر تبصرہ نہیں کیا ، جنہوں نے نشاندہی کی تھی کہ طیارے کی دم کے حصے پر دیکھے گئے سوراخوں سے ظاہر ہوا کہ وہ روسی فضائی دفاعی نظاموں کی فائرنگ کی زد میں آیا تھا۔
یوکرینی ڈرونز نے اس سے قبل گروزنی اور روسی نارتھ قفقاز کے دوسرے علاقوں پر حملہ نہیں کیا ہے ۔
آذر بائیجان ائیر لائنز نے حادثے کی وجہ غیر واضح ، فزیکل اور ٹیکنیکل وجہ قرار دی ہے اور کئی روسی ائیر پورٹس کی جانب فلائٹس معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔
فورم